گوانتانامو بے جیل میں قیدیوں کو اذیت دینے اور تشدد کرنے کے سلسلے میں امریکی حکومت تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے راک موسیقی کے ایک گروپ کے رکن کا کہنا ہے کہ بینڈ نے امریکی فوج سے کہا ہے کہ چونکہ گوانتانامو بے جیل میں قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے ان کے گانے ستعمال کیے گئے تھے، اس لیے امریکی فوج انہیں معاوضہ ادا کرے۔
’سکِنی پپی‘ (Skinny Puppy) نامی بینڈ کے رکن کیون کی نے سی ٹی وی نیوز کو بتایا کہ بینڈ نے اپنی موسیقی کے استعمال کے عوض 666،000 ڈالر مانگے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جیل میں کام کرنے والے ایک محافظ اور بینڈ کے مداح نے انہیں بتایا ہے کہ ان کی موسیقی استعمال کی گئی تھی۔
تاہم امریکی فوج کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سلسلے میں انہیں بل وصول نہیں ہوا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل ٹاڈ بریسیل نے کہا کہ محکمۂ دفاع گوانتانامو بے میں ہونے والی سرگرمیوں پر تبصرہ نہیں کرتا۔
کیون کی کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ ان کی موسیقی کو کسی کو اذیت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ ایسا ان کی اجازت کے بغیر کیا جا رہا ہے۔
گوانتانامو بے جیل میں قیدیوں کو اذیت دینے اور تشدد کرنے کے حوالے سے امریکی حکومت تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے اور امریکی حکام انہیں ’تفتیشی طریقہ کار‘ کہتے ہیں۔
“ہمیں اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ ہماری موسیقی کو کسی کو اذیت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ ایسا ہماری اجازت کے بغیر کیا جا رہا ہے۔”
’سکنی پپی‘ نامی بینڈ کے رکن کیون کی
اطلاعات کے مطابق افغانستان اور عراق میں متعدد جیلوں میں قیدیوں کے کمروں میں انتہائی اونچی موسیقی بجائی جاتی ہے جن میں میٹیلیکا، نائن انچ نیلز، کوئین اور سیسمی سٹریٹ سے لیے گئے گانے شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ اس انداز سے تفتیش کے موجد امریکی جنرل نے کہا تھا کہ اس سے قیدی میں خوف پیدا ہوتا ہے اور پکڑے جانے کا نفسیاتی دھچکہ زیادہ عرصے تک اثر رکھتا ہے۔
بی بی سی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی ہے کہ سکنی پپی کے گانے گوانتاناموبے جیل میں استعمال ہوئے ہیں یا نہیں۔
کیون کی کا کہنا ہے کہ جیل کے سابقہ محافظ نے اس ملازمت پر گزرنے والے اپنے وقت کے بارے میں کتاب لکھی ہے اور انہوں نے بینڈ سے رابطہ کیا ہے۔
کیون کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس محافظ کو ہماری موسیقی کے ایسے استعمال پر خاصی حیرانی ہوئی تھی۔‘