جسمانی تھکن اتارنے کا بہتر ذریعہ مکمل اور بھرپور نیند کے سِوا کیا ہوسکتا ہے؟ دن بھر کی جسمانی اور دماغی مشقت کے بعد نیند ہماری راحت اور سکون کا باعث بنتی ہے۔
یہ جسمانی اور دماغی صحّت برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئی بھی جاندار چند گھنٹوں کی نیند کے بعد خود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے اور معمولاتِ زندگی بہتر طور پر انجام دینے کے قابل پاتا ہے۔ آرام دہ بستر اور پْرسکون
ماحول میسر آتے ہی انسان نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، لیکن ڈپریشن، لیٹنے کے بعد کسی سوچ اور فکر میں گم رہنے سے ہمیں بے خوابی یا نیند میں خلل واقع ہونے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ تاہم کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آجائیں تو نیند بھی نارمل ہوجاتی ہے۔ البتہ طویل عرصے تک مذکورہ شکایت برقرار رہے تو انسان چڑچڑا اور جذباتی عدم توازن کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ بے آرام اور تھکن محسوس کرتا ہے، جس کا معمولاتِ زندگی پر برا اثر پڑتا ہے۔
دورانِ نیند جسم کے تمام اہم اعضا اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ چند دماغی افعال، جیسا کہ ڈیلٹا ویوز کی رفتار نیند کے دوران بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ہارمونز ایسے ہیں جو سوتے وقت زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ جس طرح نیند کی حد سے زیادہ کمی ہمارے لیے ٹھیک نہیں اسی طرح کسی فرد پر دن کے مختلف اوقات میں نیند کا غلبہ بھی ایک قسم کی گڑبڑ کا اشارہ ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں یا اونگھنے لگتے ہیں۔
ہمہ وقت نیند کا غلبہ رہنایا اضافی نیند محسوس کرنے کو ’نارکولیپسی‘ کہتے ہیں، جو دراصل ایک اعصابی بیماری ہے۔ اس کی علامات میں اچانک اور شدید نیند کا احساس اور پٹھوں اور عضلات کا ڈھیلا پڑجانا شامل ہے۔ نارکولیپسی سے مرد و خواتین دونوں ہی یکساں متاثر ہوتے ہیں۔ یہ عارضہ زیادہ تر نوجوانی میں سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے اس عارضے مبتلا افراد کم ہی جان پاتے ہیں کہ وہ نارکولیپسی کا شکار ہیں۔ کیوں کہ عام طور پر اچانک نیند محسوس کرنے کو رات کی کم یا نامکمل نیند، تھکن اور کم زوری سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
نارکولیپسی کی وجہ سے ہمارے معمولاتِ زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ انسان اپنا کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرپاتا اور ذمہ داریاں نبھانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ غنودگی کے سبب نئی اور مختلف چیزیں سیکھنے اور یاد رکھنے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ کسی کام پر پوری توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس مرض کو سمجھنے کے لیے نارمل نیند کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ہماری نیند ایک سائیکل میں مکمل ہوتی ہے۔ آنکھ لگنے کے بعد ہم اپنی نیند کے لائٹ اسٹیج میں داخل ہوتے ہیں، جسے عام طور پر کچی نیند کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہم گہری نیند میں داخل ہوجاتے ہیں جو ڈارک اسٹیج کہلاتی ہے۔ اس دوران اگر ہمیں جگایا جائے تو ہم مشکل سے اٹھتے ہیں اور اچانک اٹھنے پر بدحواس بھی ہوسکتے ہیں۔ نیند کی ایک دوسری اسٹیج میں ہمارا دماغ مصروف ہوجاتا ہے، پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور آنکھوں کی پتلیاں تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔
ہم خواب بھی نیند کے اسی حصے میں دیکھتے ہیں۔ایک صحت مند انسان ساری رات یا سونے کے دوران کئی بار نیند کے مختلف مراحل میں داخل ہوتا ہے، لیکن نارکولیپسی سے متاثرہ فرد لیٹتے ہی براہ راست ایک مخصوص مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور دن کے اوقات میں بھی بار بار اور اچانک ہی اس میں چلا جاتا ہے۔ نیند کے اس حصہ میں ہمارے پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اس عارضے کا شکار فرد جب اچانک اور براہِ راست نیند کے اس مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
طبی محققین کے مطابق اس مرض کا شکار افراد کے دماغ کے خلیات کیمیائی مادّہ ہائپوکریٹن ضرورت سے کم مقدار میں خارج کرتے ہیں۔ یہ مادّہ ہمارے سونے اور جاگنے کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نارکولیپسی کی وجہ سے انسان کا سونے اور جاگنے پر اختیار نہیں رہتا اور وہ اس معاملے میں بے بس نظر آتا ہے۔ اس مرض کا کوئی مخصوص علاج موجود نہیں، لیکن طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ وہ ہائپوکریٹن کے لیول کو بڑھانے پر قادر ہو جائیں، جس کی مدد سے نارکولیپسی کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔