تہران : رہبراعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران اپنے نیوکلیئر حقوق سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے گاا اور ان کی مذاکراتی ٹیم ایران کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت کے لئے حدود طے کرچکی ہے جس کے مطابق جینوا میں نئے دور کے مذاکرات ہوں گے۔ایران کی رضاکار فوج “بسیج”کے 50 ہزار اہلکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ ہمارا اصرار ہے کہ ہم اپنے حقوق سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انھوں نے کہا ہم ان مذاکرات کی تفصیلات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس کے کچھ حدود اور سرخ لکیریں ہیں جس کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ انھیں ان حدود کی پابندی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مذاکراتی ٹیم کو اس بات سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے کہ دشمن کیا کہتا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ ، یوروپی یونین کی جانب سے ایران کی نیوکلیئر سرگرمیوں پر عائد ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے خامنہ ای نے کہا کہ وہ ایران پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
ایرانی کبھی بھی اس دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ انھیں جان لینا چاہئے کہ ایرانی قوم دنیا کے تمام ممالک کا احترام کرتی ہے لیکن ہم جارح طاقتوں کے چہرے پر ایسا طمانچہ رسید کریں گے کہ وہ کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ خامنہ ای نے کسی مخصوص ملک کا حوالہ دیئے گئے بغیر یہ بات کہی۔ امریکہ اور مغرب کے تاریخی جرائم اور مشرق وسطیٰ میں جنگی جنون کی موجودہ کوششوں کو گناتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ حتی کہ امریکہ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔
ہم امریکی قوم کے دشمن نہیں ہیں۔ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کے طرح ہیں۔ ان کے اس جملے پر سپاہیوں نے امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں فرانس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ خیال رہے کہ فرانسیسی صدر فرانکوئس اولاند نے اتوار کو اسرائیل کو یقین دیا کہ فرانس ‘ ایران کے خلاف معاشی پابندیوں میں نرمی کی اس وقت مخالفت جاری رکھے گا جب تک وہ اس بات کا قائل نہ ہوجائے کہ تہران نیوکلیئر اسلحہ کا پروگرام ترک کرچکا ہے۔ خامنہ ای نے کہا کہ فرانسیسی عہدیدار نہ صرف امریکہ کے آگے ڈھیر ہورہے ہیں بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔