عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے بھارت میں ہم جنس پرستوں اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیموں کو شدید دھچکا لگا ہے جو 2009ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے بعد کافی خوش تھے۔ ہندوستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی روابط کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس بارے میں ملک کی ایک ہائی کورٹ کے پہلے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 2009ء میں ہائی کورٹ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیئے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے بھارت میں ہم جنس پرستوں اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیموں کو شدید دھچکا لگا ہے جو 2009ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے بعد کافی خوش تھے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے چار سال قبل فیصلہ سنایا اور صرف قانون ساز ہی قانون میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کو مساوات کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے کسی بھی شخص کی انفرادی آزادی مجروح ہوتی ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں رائج برطانوی قانون کی یہ دفعہ’’فطرت کے برخلاف جنسی تعلق‘‘ پر قدغن لگاتی ہے۔
سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرنے والوں میں شامل ایک تنظیم مسلم چیئرٹی کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ خوش آئند فیصلہ ہے اور ’’ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسلم، کرسچیئن اور ہندوؤں کی اکثریتی برداری نے چیلنج کیا تھا۔‘‘ ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی روابط قابل سزا جرم ہے اور اس کے مرتکب شخص کو دس سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔