نئی دہلی؛سپریم کورٹ نے ہندوتو اکے سلسلے میں 1995 کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے سے آج انکار کردیا۔ چیف جسٹس تیرتھ سنگھ ٹھاکر کی صدارت والی سات رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ وہ ہندوتو کو طرز حیات قرار دینے والے 1995 کے فیصلے کی تشریح نہیں کرے گی۔
آئینی بنچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مدن بی لوکور’ جسٹس ایس اے بوبڈے ‘ جسٹس آدرش کمار گوئل’ جسٹس ادے امیش للت’ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایل ناگیشور راو شامل ہیں۔آئینی بنچ نے کہا کہ بیس سال پرانے فیصلے میں یہ بات کہیں نہیں لکھی گئی ہے کہ آئینی بنچ کو ہندوتو کی تشریح کرنی ہے ۔ فیصلے کے کسی بی حصے میں اس بات کا ذکر نہیں ہے ۔ جسٹس ٹھاکر نے کہا کہ جس بات کا ذکر ہی نہیں ہے اسے ہم کیسے سن سکتے ہیں۔
عدالت نے یہ تبصرہ سماجی کارکن تیستا سیتلواد ‘ ریٹائرڈ پروفیسر شمس السلام اور صحافی دلیپ منڈل کی عرضی پر کیا ہے ۔ حالانکہ عدالت نے عرضی کو زیر التوا رکھا۔عدالت عظمی نے کہا کہ وہ اس معاملے پر غور نہیں کرے گی کہ ہندوتوا کا مطلب ہندو دھرم سے ہے یا الیکشن میں اس کے استعمال کی اجازت ہے یا نہیں۔ عدالت نے کہا کہ وہ عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 123(3) کے تحت مذہبی رہنماوں اور امیدواروں کے درمیان سانٹھ گانٹھ کے جواز پر غور کرے گی۔اس قانون کی دفعہ 123(3) کہتی ہے کہ الیکشن میں کسی امیدوار یا اس کے ایجنٹ یا امیدوار کی رضامندی سے کسی شخص کے ذریعہ یا دیگر شخص’ مذہب’ نسل’ ذات’ فرقہ یا زبان کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے لوگوں کے درمیان نفرت یا دشمنی کو فروغ دینا یا اس کی کوشش کرنانا مناسب ہے ۔