تمام 13 ملزمین گرفتار،پراسیکیوٹر کی ریمانڈ میں توسیع کے لیے درخواست. بھارتی سپریم کورٹ نے ریاست مغربی بنگال کے ضلع بربھوم میں ایک قبائیلی عورت کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے اور ریاستی حکومت کو اس سلسلہ میں ایک حکم جاری کیا ہے جبکہ اس دوشیزہ سے اجتماعی زیادتی کے بعد اس کے گاؤں کے بیشتر مرد گھروں سے بھاگ گئے ہیں۔
ہندوستانی عدالت عظمیٰ کے تین ججز کی بنچ نے چیف جسٹس پی ستھیا سیوم کی سربراہی میں جمعہ کو اس انسانیت سوز واقعہ کی سماعت کی۔اس واقعہ پر جج صاحبان بھی حیرت زدہ اور رنجیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔انھوں نے ایک حکم نامے کے ذریعے بربھوم کے ڈسٹرکٹ جج کو ہدایت کی ہے کہ وہ عصمت ریزی کے مقام کا معائنہ کرکے سپریم کورٹ کو ایک ہفتہ کے اندراپنی رپورٹ پیش کریں۔
واضح رہے کہ 20 سالہ دوشیزہ کی عصمت ریزی کا حکم ریاستی دارالحکومت کولکتہ سے پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع گاؤں سبل پور میں موجود ایک”گنگارو عدالت” (پنچایت) کے سربراہ ( سرپنچ ) نے دیا تھا کیونکہ پنچایت کےمطابق اس عورت نے اپنی برادری سے باہر کے کسی نوجوان سے معاشقہ کرتے ہوئے فاش غلطی کی تھی جس کی سزا عصمت ریزی ہی ہوسکتی تھی۔اس حکم کے بعد تیرہ افراد نے منگل کی رات اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔
دوسری طرف پولیس نے عصمت ریزی کے تمام زیرحراست 13ملزمین کا تازہ ریمانڈ حاصل کرنے کی درخواست کی ہے۔انھیں گرفتاری کے بعد جمعہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ریاست کے پبلک پراسیکیوٹر رنجیت گنگولی نے کہا کہ انھوں نے تمام ملزمین کے پولیس ریمانڈ کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
دریں اثناء عصمت ریزی کی متاثرہ لڑکی کی حالت بہتر بتائی گئی ہے۔مقامی سوری صدر اسپتال میں اس کا علاج جاری ہے۔اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ امیت کمار بسواس نے بتایاکہ متاثرہ لڑکی کی حالت ٹھیک ہے اور وہ غذا کا استعمال کررہی ہے۔
گاؤں کی پنچایت نے پہلے اس لڑکی پر اپنی برادری سے باہر کے ایک مسلم نوجوان سے معاشقہ کرنے پر 50 ہزار روپئے جرمانہ بھی عاید کیا تھا لیکن وہ یہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی عصمت تار تار کردی گئی۔اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ اس کو پولیس تک جانے اور اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ کی رپورٹ کرنے سے بھی زبردستی روکنے کی کوشش کی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ہجوم نے اس کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اس نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ سے متعلق بولنے کی کوشش کی تو اس کو مزید تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔پنچایت کے ارکان نے اس کو پولیس کے پاس جانے اور شکایت درج کرانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
گاؤں کے مکینوں نے اس کے گھر کا محاصرہ کررکھا تھا لیکن وہ بدھ کی سہ پہر گھر سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئی اورقریبی پولیس تھانے میں پہنچ کر اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ کی اطلاع کردی۔
سبل کا دورہ کرنے والے صحافیوں کے مطابق اس گاؤں میں بانسوں سے بنے ایک چھوٹے جھونپڑے میں اس عورت کے ساتھ جرم کا ارتکاب کیا گیا تھا۔اس کے بارے میں پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ سرپنچ کے باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس کمرے کے اندر لکڑی کا ایک بستر ،مچھردانی اور برتن پڑے ہوئے تھے۔
متاثرہ لڑکی کے پڑوسیوں نے صحافیوں کا بتایا کہ وہ ایک خاموش طبع لیکن جاذب نظر اور بااخلاق ہے۔وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے اور انتہائی کم اجرت پر کھیت مزدور کے طور پر کام کرتی ہے۔اس کی ایک ہمسائی خاتون نے بتایا کہ لڑکے نے اس سے بہت جلد شادی کا وعدہ کیا تھا لیکن گاؤں کی پنچایت کو یہ منظور نہیں تھا کیونکہ لڑکا مسلمان تھا۔
بھارت میں آئے دن خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور حکومت کو حال ہی میں نافذ کردہ سخت قوانین کے باوجود خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات کی روک تھام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
یادرہے کہ دسمبر 2012ء میں دارالحکومت نئی دہلی میں ایک طالبہ کی اجتماعی عصمت ریزی کا سنگین واقعہ رونما ہوا تھا جس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد خواتین سے ناروا سلوک اور ان پر جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے قانون کی منظوری دی گئی تھی۔بھارتی سیاست دانوں نے ریاست مغربی بنگال میں پیش آئے تازہ واقعہ کی مذمت کی ہے لیکن خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس سے ایک مرتبہ پھر یہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ مردوں کی بالادستی والے بھارتی معاشرے میں 2012ء کے بعد سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔