دسمبر سنہ 2012 کے دہلی گینگ ریپ واقعے کے بعد ملک بھر میں ریپ کے خلاف لوگوں میں آگہی پیدا ہوئی ہے اور قوانین میں بھی سختی لائی گئی ہے
بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع میں ایک غیر قبائلی لڑکے سے محبت کرنے کی وجہ سے ایک پنچایت کی ایما پر ایک 20 سالہ قبائلی لڑکی کے ساتھ 12 لوگوں نے مبینہ اجتماعی عصمت دری کی ہے۔
پولیس کے مطابق گاؤں کے بڑے بزرگوں کی نگرانی میں پنچایت کے حکم پر لڑکی کا ریپ کیا گیا ہے۔ لڑکی اس وقت ہسپتال میں ہے اور اس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر سنہ 2012 کے دہلی گینگ ریپ واقعے کے بعد ملک بھر میں ریپ کے خلاف لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور قوانین میں بھی سختی لائی گئی ہے۔
کولکتہ سے بی بی سی کے نامہ نگار امیتابھ بھٹا سالی نے بتایا ہے کہ لڑکے پر بھی ’محبت کرنے کے جرم‘ کے لیے 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گاؤں کے پردھان سمیت تمام 13 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مزا کرنے کا حکم
“اس کے خاندان نے جرمانہ نہیں دیا ہے اس لیے جاؤ اور لڑکی کے ساتھ مزا کرو۔”
پولیس کے پاس درج شکایت کے مطابق پنچایت کے سربراہ مانڈي کا قول
ضلعے میں پولیس کے سربراہ سی سدھاکر نے بتایا: ’راجارام پورگاؤں کی متاثرہ لڑکی کا پڑوس کے چوہاٹا گاؤں کے ایک غیر قبائلی لڑکے کے ساتھ تعلق تھا۔ یہ دونوں گذشتہ پانچ سال سے ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’پیر کو شادی کی تجویز لے کر جب لڑکا لڑکی کے گھر گیا تو گاؤں والوں نے اسے دیکھ لیا اور پنچایت بلا لی۔ پنچایت کی کارروائی کے دوران لڑکے اور لڑکی کو ہاتھ باندھ کر بٹھایاگیا۔
’اس کے بعد گاؤں کے پردھان یعنی سربراہ بلائی مانڈي نے فیصلہ سنایا کہ دونوں کو 25-25 ہزار روپے کا جرمانہ دینا ہوگا۔ لڑکے کے خاندان نے 25 ہزار روپے کا جرمانہ بھر دیا جبکہ لڑکی کے خاندان والے جرمانہ بھرنے سے قاصر رہے۔‘
’اس کے بعد مانڈي، جو لڑکی کا دور کا رشتہ دار بھی ہے، اس نے متاثرہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا حکم دیا۔‘
پولیس کے پاس درج شکایت کے مطابق مانڈي نے کہا تھا: ’اس کے خاندان نے جرمانہ نہیں دیا ہے اس لیے جاؤ اور لڑکی کے ساتھ مزا کرو۔‘
پولیس کے مطابق ریپ کرنے والوں میں لڑکی کے والد کی عمر اور اس کے چھوٹے بھائیوں کی عمر کے ملزم بھی شامل ہیں۔
بھارت میں دسمبر سنہ 2012 کے بعد ملک گیر پیمانے پر ریپ کے زیادہ واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں
پیر کی رات کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد لڑکی اور اس کے خاندان والوں نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدھ کی دوپہر کو پولیس میں معاملہ درج کروایا۔ لڑکی کو گذشتہ رات ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔
بیربھوم کے چیف میڈیکل افسر است بسواس نے کہا کہ ’ڈاکٹروں کی پانچ رکنی ٹیم متاثرہ لڑکی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں اور فورنسک ٹیسٹ کے لیے نمونے لے لیے گئے ہیں۔‘
بیربھوم میں اس قسم کی دیہی اور قبائلی پنچایت کی جانب سے ظلم و تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل سنہ 2010 میں گاؤں کے بزرگوں نے اسی طرح ایک غیر قبائلی لڑکے سے محبت کرنے کی وجہ سے ایک لڑکی کو برہنہ کر کےگاؤں میں گھمانے کا حکم دیا تھا۔ اس پورے واقعے کی ویڈیو بھی بنائی گئی تھی اور موبائل فون کے ذریعے اس کی تشہیر کی گئی تھی۔ کچھ نامہ نگاروں کے پاس جب یہ ویڈیو پہنچی تو یہ معاملہ میڈیا میں آیا۔
بیربھوم کے قبائلی علاقے میں ایک رضا کار تنظیم چلانے والے کنال دوبے نے کہا کہ ’بیربھوم میں اس قسم کی متعدد وارداتیں ہوئی ہیں لیکن ان میں سے معدودے چند ہی میڈیا میں آئي ہیں۔‘