آدم خور کا سامنا کرنے کے لیے تین تربیت یافتہ ہاتھیوں پر ماہر نشانے باز افراد کو تعینات کیا گیا ہے
جنوبی بھارت کے پہاڑی مقام اوٹي میں جنگل سے ملحقہ چائے کے باغات میں ایک آدم خور شیر کو پکڑنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس شیر نے گزشتہ 10 دنوں میں تین افراد کو مار ڈالا ہے۔
ریاست تمل ناڈو کے ضلع نيلگري کے ضلعی کلکٹر پی شنکر کے مطابق شیر نےگزشتہ کئی دنوں سے دہشت پھیلا رکھی ہے اور اسے پکڑنے کے لیے علاقے میں 45 کیمرے لگائے گئے ہیں جبکہ 150 مسلح افراد شیر کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
آدم خور شیر کی دہشت سے قریباً 12 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں اور علاقے میں کرفیو کی سی کیفیت ہے۔
حکام نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شام کو اکیلے باہر نہ نکلیں۔
ضلع کلکٹر نے بتایا ہے کہ علاقے کے 45 سکول اس وقت تک بند رہیں گے جب تک کہ آدم خور شیر پکڑا نہیں جاتا۔
پی شنکر نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امید ہے کہ ہم شیر کو جمعہ تک پکڑ لیں گے۔ اگر تب تک شیر پکڑا نہیں گیا تو پوگل کے تہوار کی تعطیلات کے بعد کھلنے والے سکول مزید بند رہیں گے۔‘
علاقے میں آدم خور شیر کو پکڑنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔
شیر کو پکڑنے کے لیے علاقے میں 45 کیمرے لگائے گئے ہیں جبکہ 150 مسلح افراد اس کی تلاش میں سرگرم ہیں ضلع کلکٹر پی شنکر کے مطابق ’ہم نے یہاں پہلے 25 کیمرے لگائے تھے۔ آج ہم نے 20 کیمرے مزید لگائے ہیں۔ شیر کو تلاش کرنے کے لیے مقامی دیہاتیوں کے ساتھ ہمارے 150 ملازمین بھی لگے ہوئے ہیں۔‘
اس شیر نے اپنا پہلا شکار 4 جنوری کو کیا تھا اور 33 سالہ خاتون کی ادھ کھائی لاش اگلے دن لوگوں کو ملی تھی۔ آدم خور شیر نے تین دن بعد اپنا دوسرا شکار کیا جو 58 سال کی ایک بوڑھی عورت تھی۔
اس خاتون پر شیر نے تب حملہ کیا جب وہ چائے کے باغات سے اپنے ایک ساتھی مزدور کے ساتھ گھر لوٹ رہی تھیں۔
نيلگري کے ضلع کلکٹر پی شنکر نے بتایا کہ ’ہم نے اس آدم خور کا سامنا کرنے کے لیے تین تربیت یافتہ ہاتھیوں پر ماہر نشانے باز افراد کو تعینات کیا ہے۔‘
گھنے جنگلوں پر مشتمل یہ علاقہ جنوبی بھارت کی تین ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک اور کیرالہ میں بٹا ہوا ہے۔ اس علاقے میں شیر کے آدم خور ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے آخری ہفتوں میں ایک شیر نے کرناٹک کے باديپر ون علاقے میں تین لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ ہفتوں کی تلاش کے بعد اس آدم خور شیر کو پکڑ لیا گیا تھا اور اسے میسور کے چڑیا گھر بھیج دیا تھا۔
2011 میں ہونے والی ’شیر شماری‘ کے نتائج کے مطابق بھارت میں اب صرف 1700 شیر باقی رہ گئے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 1947 میں بھارت میں تقریباً 40 ہزار شیر تھے لیکن پہلے راجہ مہاراجاؤں کے شکار کے شوق اور پھر مشرقی ایشیائی ممالک میں دواؤں میں استعمال کے لیے شیروں کے اعضا کی بھرپور مانگ کی وجہ سے ان کی تعداد تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔