جسونت سنگھ نے اس سے پہلے بانی پاکستان جناح پر کتاب لکھی تھی جس کی وجہ سے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا
بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کہا ہے کہ چار سرحدی لائنوں کی وجہ سے بھارت گھر کر رہ گیا ہے اور ان سرحدی حدود سے نکلنا ملک کے لیے اشد ضروری ہے۔
ان کے مطابق ان چار سرحدی لائنوں میں بھارت اور چین کے درمیان کی میك موہن لائن، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کی ڈیورنڈ لائن، بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چین کے ساتھ حقیقی کنٹرول لائن شامل ہیں۔
بی بی سی سے خصوصی بات چیت کے دوران جسونت سنگھ نے کہا کہ ’چین اور پاکستان کے تناظر میں ہم ان چار لائنوں میں پھنس گئے ہیں، ہم اس سے نجات پا سکتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا ہی بھارت کے لیے ضروری ہے۔‘
جسونت سنگھ کی نئی کتاب ’انڈیا ایٹ رسک: مسٹیكس، مس کنسیپشنز اینڈ مس ایڈونچرز آف سکیورٹی پالیسی‘ میں بھارت کے دفاع سے متعلق سوالات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
یہ کتاب جمعے کو دلی میں جاری کی جا رہی ہے۔
رسم اجرا سے قبل بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اپنی اندرونی اور بیرونی جدوجہد سے نمٹنے کے لیے بھارت کے پاس اسٹریٹجک تناظر کی کمی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بھارت کو اپنی حدود تک کا علم نہیں ہے، یہاں تک کہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے بھارت کا کوئی نقشہ ہی نہیں ہے۔‘
بھارت چار لائنوں میں قید
“میں نے کتاب تقسیم ہند سے شروع کی ہے کیونکہ تقسیم ہی بھارت کے سامنے سلامتی کے تعلق سے پہلا بڑا چیلنج تھا۔ ایک جغرافیائی اکائی کو نقشے پر ریڈكلف لائن کھینچ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کے خارجہ رشتوں کی پالیسی چار لائنوں میں قید ہوکر رہ گئي”
جسونت سنگھ
لیکن کیا ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے بھارت ایک یونٹ کے طور پر موجود تھا؟
جسونت سنگھ کا خیال ہے کہ نیشن کا تصور بعد میں آیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ نیشن کا تصور مغربی ہے اور یہ کہ نیشن اور قوم میں فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی ضروری نہیں کہ تمام تر مغربی اصلاحات کی تعریف ہندوستانی تناظر میں کارآمد ہوں۔‘
اپنی کتاب میں جسونت سنگھ نے 1947 میں تقسیم اور اس کے بعد کی تقریباً تمام بڑی جنگوں کا حوالہ دیا ہے۔
بطور خاص 1948 میں کشمیر میں ہونے والے بھارت پاک تصادم، 1962 کی بھارت چین جنگ اور پھر پاکستان کے ساتھ ہونے والی تین جنگوں کے حوالے سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کے سامنے ملک کی سلامتی کو درپیش خدشات کو دور کرنے کا کوئی خاکہ ہی نہیں تھا۔
انہوں نے کہا، ’میں نے کتاب تقسیم ہند سے شروع کی ہے کیونکہ تقسیم ہی بھارت کے سامنے سلامتی کا پہلا بڑا چیلنج تھا۔ ایک جغرافیائی اکائی کو نقشے پر ریڈكلف لائن کھینچ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کے خارجہ رشتوں کی پالیسی چار لائنوں میں قید ہوکر رہ گئي۔‘
اپنی کتاب میں سابق وزیر خارجہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان نے بھارت پر تقسیم کے اثرات کی تحقیق کی ہے۔
کتاب میں تقسیم ہند اور بھارت کے دفاع سے متعلق سوالات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے
وہ کہتے ہیں کہ تقسیم اب تک کا سب سے بڑا فرقہ وارانہ فساد تھا۔
انہوں نے کہا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار وللبھ بھائي پٹیل جیسے رہنماؤں کے سامنے بھارت کی سلامتی کا بہت محدود خاکہ تھا۔
وہ چین کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین نے سنہ 1949ء کے بعد سے ہی اندرونی قوت پر زور دیا اور اپنی زمینی سرحدوں کو مضبوط کرنا شروع کر دیا تھا۔
جسونت سنگھ نے بی بی سی سے کہا ’چین پھر تبت کی طرف بڑھا اور سنکیانگ میں گیا جہاں پہنچنے کے لیے اسے راستے کی ضرورت تھی تو اس نے لداخ کو درمیان سے کاٹ دیا ۔۔۔ جبکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔‘
اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے: ’برطانوی جب بھارت آئے تو انہوں نے شروع میں ہی اضافی فوجی طاقت کھڑی کر لی اور پھر اس کا استعمال اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کیا جبکہ آزادی کے بعد بھارت ایسا کرنے میں ناکام رہا۔‘
جن چار حد لائنوں کی بات جسونت سنگھ کرتے ہیں ان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ہم ان چار لائنوں کے دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ہم پھنسے ہوئے ہیں اس لیے جاگو ! ہم اس جکڑے ہوئے ماحول سے آزاد ہو سکتے ہیں اور ایسا کرنا ہی بھارت کے مفاد میں ہے۔‘