(یو م شہادت پر خصوصی مضمون)
فیض آباد: ملک کی خدمت کیلئے جانثار کرنے والے شہید اشفاق اللہ خاں ہندو۔ مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے ۔ کاکوری سانحہ کے سلسلے میں 19 دسمبر 1927 کو فیض آباد جیل میں پھانسی دیئے جانے والے اشفاق اللہ خان نے وقتاً فوقتاً ایسی منفرد مثالیں پیش کیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندو ۔مسلم اتحاد کے نہ صرف زبردست حامی تھے بلکہ وہ اس سمت میں تخلیقی کام بھی کرتے رہتے تھے ۔ دہلی میں گرفتار کئے جانے کے بعد کاکوری سانحہ کے خصوصی جج عین الدین نے جب انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو اشفاق اللہ نے جواب دیا تھا کہ ‘میں تنہامسلمان ہوں، اس لئے میری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے ’ ۔ جیل میں ان سے ملاقات کرنے آئے ان کے ایک دوست نے جیل سے فرار ہونے کی بات کی تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا تھا کہ ‘ بھائی کسی مسلمان کو بھی تو پھانسی چڑھنے دو’۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ انقلابی سرگرمیوں میں ہندو ۔مسلم نوجوان فعال اور مشترکہ ذمہ داری ادا کریں۔
کاکوری سانحہ کے ہیرو شہید رام پرساد بسمل نے اپنی سوانح عمری میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ میرے کچھ ساتھی اشفاق اللہ خان کومسلمان ہونے کی وجہ سے نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ ہندو مسلم جھگڑا ہونے پر ایک ذات کے لوگ کھلم کھلا گالیاں دیتے تھے ، انہیں کافر کے نام سے پکارتے تھے ۔ لیکن ایسے لوگوں کے خیالات سے اتفاق کئے بغیر وہ اپنے راستے پر آگے بڑھتے رہے ۔شہید بسمل نے لکھا ہے کہ اشفاق ہمیشہ ہندو مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے حق میں تھے ۔ اشفاق اللہ خان کی انقلابی تحریک میں ان کے تعاون کو اپنی ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے شہید بسمل نے لکھا ہے کہ ہم دونوں کے پھانسی پر چڑھنے سے لوگوں کو ایک پیغام ملے گا کہ آپ بھائی چارے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک کی آزادی اور ترقی کے لئے کام کریں۔قومیت کے زبردست حامی شہید اشفاق اللہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ، وہ حسرت وارثی کے نام سے اپنی شاعری کیا کرتے تھے ۔ ان کی شاعری میں مٹھاس کے ساتھ عوام میں قومی احساس بیدار کرنے کی زبردست طاقت تھی۔ ان کی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دل میں غلامی اور سماجی نابرابری سے متعلق کتنا درد تھا۔
اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اشفاق نے لکھا ہے کہ ‘
زمیں دشمن زماں دُشمن جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنوگے داستاں کیا تُم میرے حالِ پریشاں کی
یہ جھگڑے اور بکھیڑے میٹ کر آپس میں مل جاؤ
عبث تفریق ہے تم میں یہ ہندو اور مسلماں کی’
آزادی کے لئے پر امید رہنے والے ان انقلابیوں نے ہمیشہ آزادی کے لئے لڑتے رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ‘مرتے بسمل، روشن، لاہڑی، اشفاق ظلم سے ، ہوں گے سینکڑوں پیدا ان کی رودھر کی دھار سے ۔ عظیم انقلابی پنڈت رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں اورٹھاکر روشن سنگھ نے 19 دسمبر 1927 کو ملک کی خاطر ہنستے ہنستے پھانسی کا پھندا چوم لیا تھا۔ پنڈت رام پرساد بسمل کو گورکھپور ڈسٹرکٹ جیل میں، اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں اور ٹھاکر روشن سنگھ کو الہ آباد ڈسٹرکٹ جیل میں 19 دسمبر، 1927 کو پھانسی دی گئی تھی۔ 19 دسمبر 1927 کو فیض آباد جیل میں اشفاق اللہ کو پھانسی لگنے سے ایک دن قبل جیل والوں نے ان سے آخری خواہش ظاہرکرنے کو کہا تو اشفاق نے ریشم کے نئے کپڑے اور اچھا سا عطر مانگا۔ جیل والوں نے فوری طور پر اس کا انتظام کروا دیا۔
فیض آباد جیل میں واقع پھانسي گھر جسے اب شہید کے کمرے کے نام سے جانا جاتا ہے اشفاق اللہ کی یاد میں پھانسی دیے جانے کے دن 19 دسمبر کو سبق حاصل کرنے کے لئے کچھ پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جس میں ریاست بھر کے مجاہدین آزادی اور ان کے لواحقین اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ، مقامی لوگ، افسر اور چھوٹے بچے شرکت کرتے ہیں۔اس موقع پر لوگ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شہید اشفاق اللہ کے مجسمہ کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں کل شہید کے کمرے میں کئی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔شہید کی یاد میں فیض آباد میں مشاعرہ اور اشفاق اللہ میموریل شہید ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ‘ماٹی رتن’ ایوارڈ دیا جائے گا۔