مہیش شرما کے بیان کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کا مسلمان ملک سےمحبت نہیں کرتا اور وہ ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا، ان کا مذہب بھی بھارت کی اقدار کے لیے موزوں نہیں ہے
بھارت کے وزیر ثقافت مہیش شرما ان دنوں سیاسی رہنما کم اور فلسفی مورخ اور دانشور کی شکل میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلےانھوں نے ایک بیان میں کہا کہ سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام مسلمان ہوتے ہوئے بھی محب وطن تھے۔ مہیش شرما کا یہ بھی خیال ہے کہ سکول کے نصابوں میں صرف ہندو مذہبی کتابوں کے اقتباسات ہی شامل کیے جانےچاہیں کیونکہ اسلام اور مسیحی مذہب بھارت کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ان کے بیان سے واضح طور پر مراد یہ تھی کہ بھارت کا مسلمان ملک سےمحبت نہیں کرتا اور وہ ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا۔ اور ان کا مذہب بھی بھارت کی اقدار کے لیے موزوں نہیں ہے۔
مہیش شرما کی ذہنی پروش آر ایس ایس کےاس ماحول میں ہوئی ہے جس میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو بھارت کا وفادار نہیں سمجھا جاتا۔ آر ایس ایس، بی جے پی، بجرنگ دل، شیو سینا ہندومہا سبھا، سوامی ناراین تحریک، وشو ہندو پریشد اور اس جیسی بہت سی دوسری تنظیمیں برسوں سے مسلمانوں اور عیسائیوں سے اپنے نفرت کی تبلیغ اورترویج کرتی رہی ہیں۔ یہ تنطیمیں اور جماعتیں ملک کے بیشتر موجودہ مسائل کےلیے ملک کی انھیں دونوں مذہبی اقلیتوں کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہیں۔
جب تقسیم کا نعرہ نفرت کی تبلیغ کےلیے پہلے جیسا پر کشش نہیں رہا تو دہشت گردی، مسلمانوں کی اونچی شرح پیدائش اور ماضی کے مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ مظالم اور مذہبی جبر کو نفرت کی سیاست کا مرکزی پہلو بنایا گیا
ایک طویل عرصے تک ملک کی تقسیم کے سوال پر یہ تنظیمیں مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہیں اور جب کئی دہاہیوں کے بعد تقسیم کا نعرہ نفرت کی تبلیغ کےلیے پہلے جیسا پر کشش نہیں رہا تو دہشت گردی، مسلمانوں کی اونچی شرح پیدائش اور ماضی کے مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ مظالم اور مذہبی جبر کو نفرت کی سیاست کا مرکزی پہلو بنایا گیا۔
ملک میں نفرت کی تبلیغ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوتوا کی یہ تنظیمیں اپنے حامی مورخوں کےذریعےکئی عشروں سے یہ بھرم پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ قبل مسیح میں آریوں نے بھارت پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ بھارت کے ہی اصل باشندے تھے۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ صرف ہندو اس ملک کے باشندے ہیں اور مسلمان و عیسائی دوسرے ملکوں سے آئے۔
ہندو پرست مورخین تیرہویں صدی میں مسلم حکمرانوں کی باضابطہ سلطنت قائم ہونےسے قبل ہندو حکمرانوں کےدور کو ایک ایسے سنہری دور سے تعیبر کرتے ہیں جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بقول ان کےاس حسین اور خوشحال ہندو سلطنت کو وسطی ایشیا، ایران اورافغانستان سے آنے والے مسلم حکمرانوں نے تخت وتاراج کر دیا۔ ان تنظیموں کو اپنے نظریے کے فروغ کےلیے ماضی کے ادوار سے کچھ نفرت انگیز چہرے بھی چاہیے تھے۔ ان چہروں میں یوں تو بہت سے نام ہیں لیکن سب سے نماياں چہرہ مغل بادشاہ اورنگزیب کا ہے۔ ابھی حال میں دلی میں اورنگزیب کےنام سے منسوب ایک سڑک کا نام بدل دیا گیا ہے۔ ہندو تنظیمیں اب مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کا نام بدلنے کی مانگ کر رہی ہیں۔ اب یہ مطالبہ بھی ہو رہا ہے کہ شاہ جہاں کا نام بھی ہرجگہ سے ہٹایا جائے کیونکہ ہندو پرست مورخوں کے مطابق تاج محل کا خالق ایک عیاش غیر ملکی مسلم حمکراں تھا۔
بھارت اپنی گنگا جمنی تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے لیکن ہندو پرست اس کی جگہ ہندو کہچر کو غالب کرنا چاہتے ہیں
تہذیبوں کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب مذہب کے نام پر تاریخ تہذیب اور تقافت پر اثر انداز ہونے اور انھیں مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ تاریخ میں ہزاروں مرتبہ مذہب کی بنیاد پر انسانوں کو جبر ظلم، نفرت اورتفریق کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک بھی مذہب کے نام پر جبر و ظلم، تفریق اور نفرت کے نظام کےاسی زمرے میں آئیں گے۔
نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے بعد سے ملک میں ایک ثقافتی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ تاریخ کا ہر پہلو زیر بحث ہے۔ ملک کے بہت سے دانشور، مورخ اور مفکّرین اس بدلتے ہوئے پس منظر سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک ایک طرفہ نظریے کے پرسکوں لمحوں کےعادی ہو چکے تھے۔ نئے حالات نے ملک میں پہلی بار صحیح معنوں میں بحث و مباحثے کی فضا تیار کی ہے۔ بھارتی جمہوریت میں پہلی بار مسلمہ تصوارت کو متبادل تصورات سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔
تاریخ کوئی تمثیلی داستان نہیں ہوتی۔ یہ سائنسی نظریے اور سائنسی طریقہ کار سےمتعین ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے آنے اور جانے سے تاریخ کے حقائق نہیں بدلتے۔ بھارتی تہذیب ان تمام سیاسی جماعتوں کے تمام اجتماعی تصورات اور اجتماعی شعور سےکہیں عظیم تر ہے۔ ماضی میں بھی یہ تہذیب کئی بار مشکلوں سے گزری لیکن ہر مرتبہ یہ پہلےسےزیادہ طاقتور اور باوقار ہو کر نکلی ہے۔