کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے عوام تو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں لیکن نفرت اْن کے ذہنوں میں ہے، جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ وہ اور عامر خان عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور انہی کی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔بالی وْڈ کے مشہور اداکار عامر خان کی دوسری بیوی کرن راؤ ایک فلم پروڈیوسر بھی ہیں، اسکرین رائٹر بھی، اداکارہ بھی اور ایک ڈائریکٹر بھی۔ وہ ان دنوں جرمنی کے مشہور فلمی میلے برلینالے میں شریک ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو:
ڈی ڈبلیو: پاکستان اور ہندوستان کے مابین ثقافتی تعلقات کو کس طرح مضبوط بنایا جا سکتا ہے؟
کرن راؤ: پاکستان کے متعدد فنکار ہندوستان میں کام کر رہے ہیں۔ مجھے پاکستان اور اس قسم کے تعاون سے بہت امید ہے۔ خاص طور پر پاکستانی موسیقی اور ڈرامے متاثر کن ہیں۔ ’زی زندگی‘ پر دکھائے جانے والے پاکستانی ڈراموں کا سبھی مزہ لے رہے ہیں۔ ایسے ہی روابط دونوں ملکوں کے مابین ثقافتی تعلقات کی بنیاد بنیں گے۔
ڈی ڈبلیو: پاکستان اور ہندوستان کے مابین سیاسی کے ساتھ ساتھ ثقافتی تعلقات بھی زوال کا شکار رہے ہیں۔ اس کی وجہ؟
کرن راؤ: اس کی اصل وجہ بیوروکریسی ہے۔ ہم ملنے نہیں جا سکتے، بات چیت نہیں ہو پاتی ہے۔ زیب اور ہانیہ ہماری بہت اچھی دوست ہیں، دونوں سنگر ہیں۔ ان کا آنا جانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ زیب نے ابھی ایک پوری فلم کی کمپوزیشن کی ہے لیکن ان کا ممبئی سے باہر جانا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر نئے شہر جانے کے لیے آپ کو پہلے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے، ہر ہفتے پولیس سے ملنا پڑتا ہے۔ بیوروکریسی اور نام نہاد سکیورٹی کے چکر سے ہی آپ کی آدھی سے زیادہ تخلیقی صلاحتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں سسٹم بہتر بنانا ہوگا۔ دیکھیں، دہشت گردی کو ہم ویسے ہی روک نہیں پاتے۔ تو ایسی صورت میں ثقافتی سطح پر آپ کو فنکاروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہییں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ڈی ڈبلیو: ثقافتی تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان اور ہندوستان کو کیا کرنا چاہیے؟
کرن راؤ: ہمیں اپنی حکومتوں سے یہ کہنا چاہیے کہ ہم نہیں مانتے کہ دونوں اطراف کے لوگوں میں نفرت کے جذبات ہیں۔ نفرت شاید ان کے ذہنوں میں ہے، جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ یہ سیاسی کھیل ہے یا پھر ان کا مسئلہ ہے، جو بارڈر پر کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن لوگوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے، وہ ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں، خیال بانٹنا چاہتے ہیں۔ اب حکومتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا بدل چکی ہے۔ آپ ویسے بھی آئیڈیاز کو روک نہیں سکتے، تو لوگوں کو کیوں روک رہے ہیں؟ سکیورٹی کا اتنا ٹائٹ کنٹرول ہے انڈیا میں، اب پتہ نہیں پاکستان میں کیا صورتحال ہے؟ اگر آپ اس میں تبدیلی لائیں گے، تو ہم ایک دوسرے کو جان پائیں گے۔ پھر ہمارے نظریے بھی، کہ پاکستانی ایسے ہوتے ہیں، ویسے ہوتے ہیں، سب تبدیل ہو جائیں گے۔
ڈی ڈبلیو: کیا آپ کبھی خود بھی پاکستان گئی ہیں یا مستقبل میں جانے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
کرن راؤ: جی میں ایک مرتبہ عامر کے ساتھ پاکستان گئی ہوں۔ عمران خان صاحب نے اپنے شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے سلسلے میں بلایا تھا۔ ہم دو دن کراچی رہے اور ایک دن لاہور میں گزارا۔ ان دونوں شہروں میں عامر کے رشتہ دار بھی رہتے ہیں۔ میری آج تک بہت اچھی یادیں ہیں اس بارے میں، بہت کم وقت تھا۔ اب میری دوبارہ خواہش ہے کہ پاکستان جاؤں۔
ڈی ڈبلیو: آپ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ عامر خان کے ساتھ زندگی گزارنا آسان نہیں ہے، اس کی وجہ؟
کرن راؤ: (قہقہہ لگاتے ہوئے) کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ رہنا، جسے دنیا چاہتی ہو، آسان نہیں ہوتا۔ لوگ ان سے ہر وقت ملنا چاہتے ہیں، وہ خود ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ شاید آپ بھی اس بات کو سمجھ پائیں کہ وہ لائف کیسی ہوتی ہے، جب ہر وقت کچھ نہ کچھ چل رہا ہو۔ نائن ٹو فائیو لائف تو ہے نہیں، تو ایسے میں مشکل ہو ہی جاتی ہے۔ زندگی بہت تیز ٹریک پر چل رہی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دس دن کے لیے برلن آ کر میں کچھ آرام محسوس کر رہی ہوں۔ میں زیادہ گھومتی نہیں ہوں۔ زیادہ تر آزاد (ان کا بیٹا) کے ساتھ ہی رہتی ہوں۔ سال میں ایک دو مرتبہ ہی باہر نکلتی ہوں، زیادہ تر آزاد میرے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اب عامر وہاں ہیں تو میں باہر نکل پائی ہوں یا پھر میری ماں ہوتی ہیں تو نکل پاتی ہوں۔ آزاد سے دور رہنا مشکل ہے، لیکن فیس ٹائم اور ٹیلی فون پر بات چیت سے میں اب بھی اس کے ساتھ رابطے میں ہوں۔
ڈی ڈبلیو: آپ کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں؟
کرن راؤ: ہم دونوں (عامر خان اور کرن راؤ) بہت برسوں سے ایک فیچر فلم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلسل لکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ ابھی بھی اسی فلم پر کام چل رہا ہے۔ دو ٹی وی پروجیکٹس پر کام کر رہی ہوں۔ ذاتی کام کے علاوہ ممبئی فلم فیسٹیول کی چیئرپرسن ہو گئی ہوں۔ پہلی مرتبہ فلم فیسٹیول کا انعقاد کروانا ہے، اس پر کام چل رہا ہے۔ میرا ایک آرٹ ہاؤس سینما بنانے کا خواب پورا ہونے والا ہے۔ مجھے تین برس پہلے ایک جگہ ملی تھی اور اب اس پر کام شروع ہونے والا ہے۔