موہن بھاگوت جیسے لوگوں نے ایک عرصے سے ہندو قوم پرست حکومت کے خواب دیکھے ہیں
لگتا ہے کہ انڈیا میں ’گھر واپسی‘ کی بحث آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔
حکمراں بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے اب دہلی میں ہندوؤں سے چندے کی اپیل کی ہے تاکہ یہ رقم غریب قبائلیوں کو دی جاسکے جنھیں ان کے مطابق لالچ دے کر عیسائی بنایا جارہا ہے۔
یہ اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ آر ایس ایس کو شاید یہ بات اب سمجھ میں آنا شروع ہوئي ہے کہ کروڑوں لوگوں کی گھر واپسی تو آسان نہیں ہوگی اس لیے لوگوں کو گھر چھوڑنے سے ہی روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی یہ بھی تجویز ہے کہ ملک میں مذہ
ب کی تبدیلی پر پابندی لگا دی جائے، جو ہندو ہے وہ ہندو رہے، نہ ہندو مسلمان بن سکے نہ مسلمان ہندو، عیسائی عیسائی ہی رہیں اور قبائلی قبائلی۔
لیکن جب تک یہ قانون نہیں بنتا، وہ بھٹکے ہوئے ہندوؤں کو واپس لانے کا پروگرام جاری رکھیں گے۔
آر ایس ایس کا خواتین شعبہ درگا واہنی خواتین میں سرگرم ہے
ایک طرف موہن بھاگوت جیسے لوگ ہیں جنھوں نے ایک عرصے سے ہندو قوم پرست حکومت کا خواب دیکھا ہے اور انھیں یہ لگتا ہے کہ جو ارمان وہ ماضی میں پورے نہیں کر سکے اب انھیں پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اسی لیے وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہم کوئی درانداز نہیں ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا ہندو راشٹر، اگر آپ کو ہندو نہیں بننا تو ہندوؤں کا مذہب بھی مت تبدیل کیجیے۔‘
پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہو کر صرف ایک ہی الزام لگا رہی ہیں اور وہ یہ کہ حکومت مذہبی کشیدگی کو فروغ دے رہی ہے اور مذہب کی تبدیلی کے سوال پر خود وزیراعظم پارلیمان میں بیان دیں۔ لیکن نریندر مودی بظاہر بہت مصروف ہیں۔ ویسے بھی وزیر اعظم ہر تنازعے پر خود تو بیان نہیں دے سکتے۔ وزارتی کونسل کس کام کے لیے ہے؟
آر ایس ایس تبدیلی مذہب کے بارے میں قانون بنانا چاہتی ہے
بی جے پی کا ایک انتخابی نعرہ تھا: ’چلیں، نریندر مودی کے ساتھ۔‘ اگر آپ واقعی ان کے ساتھ چلتے تو پچھلے چھ مہینوں میں آدھی دنیا گھوم چکے ہوتے۔
پارلیمان کا رواں اجلاس بدھ کو ختم ہو جائے گا، حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی نریندر مودی کا انتظار رہے گا اور ان لوگوں کو بھی جو گھر واپس نہیں جانا چاہتے، نہ پیسے کے لالچ میں، نہ خوف سے۔
جہاں تک نئے قانون کا سوال ہے، بی جے پی کے بزرگ رہنما لال کرشن اڈوانی نے بھی ایک نئے قانون کی وکالت کی تھی، وہ چاہتے تھے کہ ملک میں ووٹنگ لازمی کر دی جائے۔
اس پر بہت سے لوگوں نے مذاقاً یہ کہا تھا کہ مسٹر اڈوانی صرف ووٹنگ لازمی نہیں کرانا چاہتے، وہ بی جے پی کے حق میں ووٹنگ لازمی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قانون بن جائے تو شاید اس قانون کی ضرورت باقی نہیں رہے گی جس کا مطالبہ موہن بھاگوت کر رہے ہیں۔
آر ایس ایس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہم کوئی درانداز نہیں ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا ہندو راشٹر، اگر آپ کو ہندو نہیں بننا تو ہندوؤں کا مذہب بھی تبدیل مت کیجیے‘
لیکن یہ ہندو مسلم کا سوال آج کل لوگوں کے ذہن پر کچھ اس انداز میں طاری ہے کہ اخبارت بھی انھی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔
گذشتہ ہفتے الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلہ سنایا۔ عدالت سے پانچ لڑکیوں نے رجوع کیا تھا جنھیں ان کے گھر والے پریشان کر رہے تھے۔ لڑکیاں ہندو تھیں جنھوں نے مسلمان لڑکوں سے شادی کر لی تھی اور شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ اگر صرف شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا گیا ہو، تو قانونی اعتبار سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ واقعی مسلمان ہوگئی ہیں، مذہب تبدیل کرنے کے لیے عقیدہ بھی ضروری ہے۔
ہیما مالنی اور دھرمیندر نے بھی شادی کے لیے اسلام قبول کیا تھا
عدالت کے فیصلوں پر تو ہم اصولاً کوئی تبصرہ نہیں کرتے، اتنی سردی میں جیل جانے کا خطرہ کون مول لے، لیکن یہ فیصلہ عہدِ رفتہ کے فلمی ستاروں دھرمیندر اور ہیما مالنی اور ایسے بہت سے لوگوں کے لیے بری خبر ہے جنھوں نے شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا تھا۔
اس سے پہلے کہ کسی کو خبر ہو، انھیں کلمۂ شہادت یاد کرنا شروع کر دینا چاہیے، یا پھر وہ اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر دیں۔