پروفیسر کانچا ایلیا نے اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ’’میں ایک ہندو کیوں نہیں؟‘‘ کے ذریعے بہت سے لوگوں کے شعور میں دھماکے کیے تھے، وہ ہندوؤں کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوتوا فلسفے، ثقافت اور سیاسی اقتصادیات
کے ایک تجزیہ نگار ہیں۔
حیدرآباد دکن کی ایک معروف مرکزی یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سماجی اخراج اور مجموعی پالیسی کے مطالعے کے مرکز کے ڈائریکٹر کانچا ایلیا نے کچھ ہندوستانی ریاستوں میں بیلوں کے ذبیحے پر پابندی کے نفاذ پر چڑھی تقدیسیت کی چادر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ خاص طور پر قبائلیوں اور دلت کی طرز کے دیہی گروہوں پر یقیناً ایک ثقافتی پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں پر ثقافتی پابندیوں کے نفاذ کا سوال تو بعد میں آتا ہے۔
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پروفیسر کانچا ایلیاہ نے کہا کہ تاریخی طور پر برہمن سمیت تمام ہندو عوام ویدک اور ویدک کے بعد کے ادوار میں گائے کا گوشت کھایا کرتی تھی۔
ان کے مطابق گوتم بدھا نے اس روایت کے خلاف بغاوت کی تھی، اس لیے کہ ان کے دور میں پروہت طبقے میں گائے کا گوشت بہت بڑی مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا۔ بدھا نے لوگوں سے کہا کہ گائے کو ذبیحہ کے لیے ہلاک نہ کرو، وہ استعمال کے لیے ہیں،نہ کہ ہلاک کرنے کے لیے۔ اس مرحلے سے موجودہ دور تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، مثال کے طور پر جنوبی ہندوستان کے اچھوت گرمیوں کے دوران خود پر اس پابندی کو برقرار رکھتے ہیں۔ جب بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت ہوجاتی ہے تو یہ لوگ بیمار اور مردہ گائے کا گوشت کھا جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میرے اپنے گاؤں میں جب میں چھوٹا تھا تو وہاں تقریباً ستّر سے اسّی دلت خاندان رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ انہیں گرمیوں میں پیٹ بھر کر کھانے کو صرف اس وقت ہی ملتا تھا، جب انہیں بیمار یا مردہ گائے ملتی تھی۔ انہیں کبھی بھی چاول، باجرہ یا کسی بھی قسم کا عام کھانا نہیں ملا۔ یہ صورتحال اب بھی جاری ہے۔
پروفیسر کانچا ایلیا۔ —. فوٹو بشکریہ یوٹیوب
پروفیسر کانچا ایلیا نے کہا کہ آر ایس ایس کی دلیل یہ ہے کہ گائے کو تحفظ دینا چاہیے اس لیے کہ یہ ہندوستانیوں کو دودھ فراہم کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو تاریخی طور پر ایک خدائی جانور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان گائے کے دودھ پر زندہ نہیں ہے، بلکہ ہندوستان بھینس کے دودھ پر زندہ ہے۔ چنانچہ کیا وجہ ہے کہ آرایس ایس بھینس کے تحفظ کا سوال کیوں نہیں کھڑا کرتی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر آپ گجرات کے قانون کو دیکھیں تو اس میں گائے کے ذبیحہ کے ساتھ ساتھ بیل اور سانڈ کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد ہے، لیکن یہ بھینس کے گوشت کے معاملے میں خاموش ہے۔ نریندرا مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں گائے کا دودھ، دودھ پیک کرنے والی فیکٹریوں کو فراہم کرنا شروع کردیا گیا تھا، جبکہ بھینسوں کو ذبح کرکے اس کے گوشت کی برآمدات شروع کردی گئی۔
گائے بیلوں کے ذبیحہ پر پابندی کے حوالے سے پورے ہندوستان میں بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ہندوستانی ریاست مہاراشٹر میں گائے کے ذبیحہ اور گوشت کی خریدو فروخت پر لگائی گئی پابندی نے ریاست کی زرعی معیشت کو شدید بحران سے قریب کردیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر ایسے ہی قدم دیگر تمام ریاستوں میں بھی اٹھائے جانے لگے تو اس طرح کی پالیسی پورے ہندوستان کی زرعی معیشت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔
پروفیسر کانچا ایلیا کہتے ہیں کہ ہندوستان میں سب سے پہلے جن لوگوں نے گائے کا گوشت کھانا شروع کیا تھا، وہ نہ تو عیسائی تھے اور نہ ہی مسلمان۔ وہ عام لوگ تھے جن میں تمام ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔ اگرچہ کئی دلت ذاتیں، قبائلی برادری اور دوسرے بہت پسماندہ ذاتیں اب بھی گائے کے گوشت کے علاوہ بھیڑ کا گوشت، چکن اور مچھلی وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈت آج بھی گوشت خور ہیں۔ بنگالی برہمن مچھلی بھی کھاتے ہیں اور گوشت بھی۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی ان تمام چیزوں پر پابندی لگائے گی جن بھیڑ، بکریاں، مرغی اور مچھلیاں بھی شامل ہیں؟ انسانوں کے کھانے پینے کی ثقافت کے سلسلے میں وہ تشدد اور عدم تشدد کے درمیان کی لکیر کہاں کھینچے گی؟
اسی دوران میڈیا میں ہندوستانی آئین کی تیاری میں شریک رہے ڈاکٹر امبیڈکر کا ایک مضمون بھی پیش کیا جارہا ہے، جس کا عنوان تھا کہ ’’کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا؟‘‘ یہ مضمون ان کی کتاب، ’’اچھوت کون تھے اور وہ اچھوت کیوں بنے؟‘‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون میں سے کچھ اقتباسات بی بی سی ہندی نے پیش کیے ہیں۔
اپنے اس مضمون میں امبیڈکر ہندوؤں کے اس دعوے کو چیلنج کیا تھا کہ ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا اور گائے کو ہمیشہ مقدس مانا ہے۔
امبیڈکر نے قدیم دور میں ہندوؤں کے گائے بیل کے گوشت کے استعمال کو ثابت کرنے کے لیے ہندو اور بدھ مت کے مذہبی کتابوں کا سہارا لیا۔
ان کے مطابق، ’’گائے کو مقدس ماننے سے پہلے گائے کو ذبح کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ہندو دھرم شاستروں کے ایک مشہور عالم پيوی کانے کا حوالہ دیا۔ کانے نے لکھا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ویدک دور میں گائے مقدس نہیں تھی، لیکن اس کی پاکیزگی کے وجہ سے ہی کہا گیا کہ گائے کا گوشت کھایا جانا چاہیے۔‘‘(مراٹھی میں دھرم شاستر وچار۔ صفحہ 180)۔
واضح رہے کہ ہندوستان پوری دنیا میں بھینس کے گوشت کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے مگر خود ہندوستان میں بیلوں اور بھینسوں کے گوشت کی کھپت 3.89 فیصد تک ہی ہے۔ جبکہ امریکہ، برازیل، یورپی یونین اور چین میں پوری دنیا کا تقریباً 58 فیصد بیف کھایا جاتا ہے۔ بھارت میں تین ریاستوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام جگہ گائے کے ذبیحہ پر 1976ء سے ہی پابندی عائد ہے۔ تاہم کچھ ریاستوں میں بیل اور بچھڑے ذبح کرنے کی اجازت ہے۔
گوشت کے کاروبار سے وابستہ تاجر تسلیم کرتے ہیں کہ اس کاروبار میں صرف ایک ہی فرقہ کے لوگ نہیں ہیں۔ تقریباً 28 ہزار کروڑ روپے کے اس کاروبار میں منافع کے ایک بڑے حصہ دار غیر مسلم تاجر بھی ہیں۔
پروفیسر کانچا ایلیا کہتے ہیں کہ جب گاندھی نے ہریجن کے تصور پر کام شروع کیا اور لوگوں کو اس تصور پر اکھٹا کرنا شروع کیا تو انہوں نے کچھ شرائط بھی عائد کیں، ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ دوسری شرط تھی کہ رام کی پوجا کرنی چاہیے۔ امبیڈکر نے محسوس کیا کہ گاندھی حقیقی معنوں میں دلتوں کو ہندو مذہب میں منتقل کررہے ہیں۔ لہٰذا امبیڈکر نے اس دلیل کے ساتھ ایک مہم شروع کی کہ گاندھی کی مہم دلتوں کی مدد کرنے نہیں جارہی۔ امبیڈکر نے کہا کہ دلتوں کاان کی ثقافتی بنیادوں کے ساتھ احترام کیا جائے