ہیروئن کے زیادہ مقدار میں استعمال اور اموات کے واقعات میں اضافے کے انسداد کے لیے امریکہ بھر میں ایک نئی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔وائٹ ہاو¿س کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی ملک کی ۱۵ ریاستوں میں صحت عامہ کے کارکنان اور قانون کے نفاذ کے ایجنٹوں کے اشتراک عمل سے شروع کی گئی ہے، جو ملک کے کثیر آبادی والے شمال مشرقی خطے میں واقع ہے، جس مہم کے دوران سزا کی بجائے طبی امداد پر زیادہ زور دیا جائے گا۔
پچیس لاکھ ڈالر کے اس پروگرام کا مقصد یہ پتا لگانا ہے کہ ہیروئن کہاں سے آتی ہے، اس میں مہلک نشہ آور مرکب کس طرح ڈالا جاتا ہے اور گلی کوچوں میں اسے کون فروخت کرتا ہے۔یہ منصوبے شروع کرنے کی خاص وجہ ملک بھر میں حالیہ دِنوں کے دوران ہیروئن کی مقدار میں زیادتی کا عنصر اور اموات میں تیزی سے اضافہ ہے۔ لیکن، یہ مہم خصوصی طور پر ان علاقوں میں چلائی جائے گی جو اس منصوبے میں شامل ہیں۔
مائیکل بوتے سیلی، انسداد منشیات کی پالیسی کے قومی ادارے کے سربراہ ہیں۔ ان کے الفاظ میں، ہیروئن کے استعمال سے متعلق اس نئی پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ ہیروئن کے استعمال پر نظر رکھی جائے اور معالجوں سے نسخہ لکھوا کر اس کے نامناسب تناسب سے استعمال کو روکا جائے، اور اس معاملے کو صحت عامہ اور حفظان صحت کی تدبیر کے عزم کے طور پر لیا جائے۔اہل کاروں کو مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش لاحق ہے، چونکہ ہیروئن میں فینٹانیل (مارفین کی طرح دافع درد دوا، جو خواب آور بھی ہے) ایک نشہ آور مرکب جو قانونی سطح پر مرض کی شفایابی کا درجہ رکھتی ہے، جسے عمل جراحی کے بعد سودمند طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ایک اہل کار نے بتایا ہے کہ توقع یہ ہے کہ صحت عامہ کے کارکنان اور پولیس کے اشتراک عمل سے، جرائم کی شرح میں کمی آئے گی اور ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد میں خاصی کمی آئے گی، جنھیں فوری طبی امداد درکار ہوتی ہے اور وہ شعبہ امرجنسی کا کیس بن جاتے ہیں۔وائٹ ہاس ڈرگ پالیسی آفس کی جانب سے ایک کروڑ ۳۴ لاکھ ڈالر کے اس منصوبے کا یہ ۲۵ لاکھ ڈالر کا پہلا حصہ ہے، جس کا مقصد ان علاقوں پر توجہ مرتکز کرنا ہے جہاں منشیات کی زیادہ مقدار اسمگل ہوکر پہنچتی ہے۔