فلم یا رب کی تشکیل کے پس پشت یہ بنیادی خیال ہے کہ اسلام میں دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی مذموم کوشش کا ایک زوردار جواب ہے۔ کچھ لوگ اسلام کا حوالہ دیکر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قران کریم میں دہشت گردی کے حق میں ایک بھی آیت نہیں ملے گی۔ اس آسمانی کتاب میں کسی بھی طرح سے دہشت گردی یا تشدد کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔
متعدد افراد جن میں نام نہاد علما و مبلغین بھی شامل ہیں دہشت گردی کو مسلمانوں کے دیگر مسائل کا حل قرار دیتے ہیں جو کہ ایک گمراہ کن طرز فکر ہے اور قوموں و ملک کو برباد کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ یہ عناصر اسلام کو ذاتی فوائد اور خود کے نام و نمود کے لئے ایسے گمراہ کن اقدام انجام دیتے ہیں جن سے ملک و قوم کے نوجوان نیز عوام خطرے اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جائیں۔خصوصی طور سے نوجوانوں میں جوش اور جذبات بھر کر انکو راہ راست سے ہٹا دیتے ہیں۔نتیجہ میں پورا سماج اور انکے خانوادے پریشانیوں اور تباہیوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتوں کو عرصہ تک ڈھوتے رہتے ہیں۔
فلم یا رب ایسے ہی پیچیدہ سوالات کا جواب دیتی ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح سے نام نہاد دینی قیادت اپنے ذاتی مفاد کے لئے قوموں کو ابھار کر ملک و قوم کا شیرازہ منتشر کرتی ہے۔
فلم یا رب کی کہانی متوازن اور دل نشین ہے، کہانی کا تانا بانہ شائقین کو باندھے رکھتا ہے اور وہ مناظر کی چابکدستی سے مٹھیاں بھینچے اگلے منظر کا منتظر رہتا ہے۔ مجموعی طور سے فلم یا رب ایک سنجیدہ کہانی اور منظر نامہ کے ساتھ دیکھنے والوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ اعجاز خاں(بگ باس مقبول) نے اپنے کردار کو بہخوبی انجام دیا ہے ۔ مکالمہ دلنشیں اور فلم بندی متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقتی مناظر پیش کرنے میں کامیاب نظر آئی ہے۔ ہدایت کار حسنین حیدر آبادی ایک منجھے ہدایت کار ہیں اور انہوں نے متعدد مناظر کی فلم بندی میں اپنے جوہر نمایاں کئے ہیں۔
فلم ساز محسن علی خاں، میثم علی خاں اور حوری علی خاں کی فلم یا رب کو مشہور فلم ساز مہیش بھٹ کی کمپنی نمائش کے لئے ٧ فروری کو ملک گیر پیمانہ پر پیش کرنے گی۔