بم حملے سے دس منٹ پہلے ایرانی سفیر رہائش گاہ سے نکل چکے تھے
یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایرانی سفیر کی رہائش گاہ پر بم حملے میں کم از کم دو افراد ہ
لاک اور 17 زخمی ہو گئے ہیں۔
بم حملے کے وقت ایران کے سفیر حسین نیک نام رہائش گاہ پر موجود نہیں تھے۔
بم دھماکے کے نتیجے میں رہائش گاہ کو بری طرح سے نقصان پہنچا ہے جبکہ ملبہ دور تک بکھر گیا۔
ہلاک ہونے والے افراد میں سکیورٹی گارڈ کا ایک بیٹا بھی شامل ہے۔
جزیرہ نما یمن میں شدت پسند گروپ القاعدہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
القاعدہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس کے کارکن سخت حفاظتی حصار کو توڑتے ہوئے سفارتی علاقے میں واقع ایرانی سفیر کی رہائش تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں ان کی رہائش گاہ کے باہر دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی سے دھماکہ کر دیا۔
القاعدہ نے اس حملے میں متعدد ایرانی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ایرانی کے ڈپٹی وزیر خارجہ حسین عامر عبداللہ نے خبر رساں ادارے تسنیم سے بات کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ایران کے کسی سفارت کار کو نقصان نہیں پہنچا ہے اور صرف مالی نقصان ہوا۔
ایک نامہ نگار کے مطابق ایران کے سفیر حسین نیک نام نے حال ہی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور وہ دھماکے سے دس منٹ پہلے رہائش گاہ سے نکل گئے تھے۔
یمن میں سرگرم القاعدہ تنظیم اس سے پہلے بھی تشدد کی کئی کارروائیاں کر چکی ہے
یمن میں اس سے پہلے بھی ایرانی سفارت کاروں کو ہدف بنایا جا چکا ہے۔ اس سے پہلے جنوری میں ایرانی سفارت کار علی اصغر اسدی نے اپنی رہائش گاہ کے باہر اغوا کی کوشش کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اس دوران وہ زخمی ہو گئے تھے اور بعد میں جانبر نہ ہو سکے۔
ایران یمن میں زیدی شیعہ آبادی کی حمایت کرتا ہے اور یمن کی شیعہ آبادی کو حوثی بھی کہا جاتا ہے۔
حوثی قبائل نے ستمبر میں دارالحکومت صنعا پر دھاوا بول دیا تھا اور اس کے نتیجے میں صدر نے تیل پر رعایت ختم کرنے کے فیصلے کو واپس لیا تھا جبکہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔ حوثی قبائل نے اس کے بعد سے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
القاعدہ نے اس سے پہلے اکتوبر میں حوثی قبائل کے ایک جلوس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم 47 افراد مارے گئے تھے۔