امریکی صدر براک اوباما نے سعودی عرب کی جانب سے یمن میں موجود حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ امریکا نے ایک ایسے وقت میں یمن کی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے جب وہ دوسری جانب عراق میں ایران کے ساتھ ملکر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ ‘داعش’ کے
خلاف لڑ رہا ہے۔
یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر تیسرے روز بھی بمباری کا سلسلہ جاری ہے جبکہ باغیوں نے ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں مزید پیش قدمی کی ہے۔
یمن میں حوثی باغیوں کے حامی اور سابق صدر صالح کی جانب سے جنگ بندی کر کے بات چیت شروع کرنے کی اپیل کی جا چکی ہے تاہم اس پر یمن کی حکومت یا سعودی عرب سمیت اس کے اتحادی ممالک کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان عبدالعزیز سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ان کی فضائی کارروائی پر اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ امریکا کا کہنا ہے کہ دونوں سربراہان نے بات چیت میں اتفاق کیا کہ یمن میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے دیربا استحکام ان کا مقصد ہے۔
اس سے قبل سعودی خبر رساں ایجنسی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان کے علاوہ سعودی عرب کو یمن کے حوثی قبائل کے خلاف مراکش، مصر اور سوڈان کی حمایت حاصل ہے۔
ہفتے کو مصر میں عرب لیگ کے دو روزہ اجلاس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں بحت کا مرکز یمن کی صورتحال ہی ہو گی۔ اس اجلاس میں یمن کے صدر ہادی بھی شرکت کر رہے ہیں جو عدن میں شیعہ باغیوں کی پیش قدمی کے بعد تین روز قبل ہی ملک سے نکلے تھے۔
دوسری جانب ایران نے یمن میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کی ایک بار پھر مذمت کی ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جمعے کو ایک بیان میں کہا:’ انھیں اسے بند کرنا ہو گا، ہر کسی کو بات چیت کرنے کی حوصلہ افزائی اور یمن میں قومی سطح پر مصالحت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بجائے اس کہ یمنی شہریوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا جائے۔‘
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے لیکن وہ ابھی وہاں زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ خیال رہے کہ امریکا نے ایک ایسے وقت میں یمن کی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے جب وہ دوسری جانب عراق میں ایران کے ساتھ ملکر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہا ہے۔
یمن کی وزارتِ صحت کے مطابق فضائی کارروائیوں میں اب تک کم از کم چھ بچوں سمیت 39 عام شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
صنعا کے ایک رہائشی محمد الجباہی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے خوف کی وجہ سے اپنے اہلِ خانہ سمیت رات کھلے آسمان تلے گزاری ہے۔ ’جب جنگی جہاز آتے ہیں تو طیارہ شکن توپوں کی فائرنگ سے میرے بچے ڈر کر رونے لگتے ہیں۔‘ فضائی حملے دارالحکومت صنعا اور حوثی باغیوں کے شمال میں مضبوط گڑھ صعدا میں کیے گئے۔
دوسری جانب حوثی باغیوں کی بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی میں پیش قدمی جاری ہے اور برطانوی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق باغیوں نے عدن سے مشرق کی جانب شہر شاقرا پر قبضہ کر لیا ہے۔
یمن کے وزیرِ خارجہ ریاض یاسین کا کہنا تھا کہ ملک میں حوثی باغیوں کی جارحیت روکنے کے لیے کارگر فضائی حملے درکار ہیں لیکن انھیں باغیوں کی پیش قدمی رکتے ہی ختم ہو جانا چاہیے۔