یمن کے شہری محمد حمود کہتے ہیں کہ جب مہر اور شادی کے اخراجات کا بار اٹھانے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا تو لوگ وٹا سٹا کا راستہ اختیار کرتے ہیں
اسلامی ممالک اور بطور خاص عرب ممالک میں شادیوں میں دلہن کے اہل خانہ کو مہر کے طور پر رقم دیے جانے کا چلن ہے عام ہے لیکن یمن میں ایک
دوسرے کی بہنوں سے شادی کرنے کی قدیم روایت ہے۔
اس قسم کی شادی کو بر صغیر ہندوستان اور پاکستان میں ’وٹا سٹا‘ کہا جاتا ہے جبکہ عرب میں اسے ’شغر‘ کہتے ہیں۔ مہر کی رقم سے بچنے کے لیے غریبوں میں اس کا چلن عام ہے لیکن اب اس کے مہلک اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔
’اگر تم میری بہن سے شادی کرو تو میں تمہاری بہن سے شادی کر لوں گا،‘ کی طرز پر ہونے والی ان شادیوں کا دوسرا پہلو ہے یہ ہے کہ ’اگر تم نے میری بہن کو طلاق دی تو میں تمہاری بہن کو طلاق دے دوں گا۔‘
یمن میں مہر کی رقم 3500 ڈالر (تقریباً ساڑھے تین لاکھ پاکستانی روپے) تک ہوتی ہے، جبکہ یہاں زیادہ تر لوگوں کی آمدنی دو ڈالر (200 روپے) یومیہ ہے۔
دارالحکومت صنعاء کے قریب واقع سوان گاؤں کے ایک بزرگوار محمد حمود کہتے ہیں کہ ’جب مہر اور شادی کے اخراجات کا بار اٹھانے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا تو لوگ وٹا سٹا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔‘
نادیہ کا کہنا ہے کہ ایسی شادی سے بہتر تو عمر بھر کنوارا رہنا ہے
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے لیکن اب اس میں کمی آ رہی ہے کیونکہ اس سے غریبی میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔‘
تیس سے کم عمر کی ایک نوجوان خاتون نادیہ کی ایک ایسے شخص سے شادی ہوئی جس کی بہن سے نادیہ کے بھائی کی شادی ہوئی تھی۔ نادیہ کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے۔
اس کی زندگی اس وقت مشکلات کا شکار ہوگئی جب اس کے بھائی نے اپنی بیوی یعنی نادیہ کی بھاوج کو طلاق دے دی۔
اس کے جواب میں اس کے شوہر نے اسے بھی طلاق دے دی اور اس کے تین بچوں کو بھی چھین لیا۔ان تین بچوں میں سب سے چھوٹی بچی سات ماہ کی تھی اور وہ اپنی اس شیر خوار بچی کو تین سال بعد ہی دوبارہ دیکھ پائی۔
نادیہ کا کہنا ہے کہ ایسی شادی سے بہتر تو عمر بھر کنوارا رہنا ہے۔
بہت سے علما اس قسم کی شادیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں کیونکہ شرعی طور پر شادی کے معاہدے میں مہر لازمی جز ہے۔
ولید کی ازدواجی زندگی میں نو ماہ بعد اس وقت پریشانیاں شروع ہوئيں جب اس نے اپنے اہل خانہ کی خواہشات کے خلاف اپنی اہلیہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا
تاہم اس قسم کی شادیوں میں بھی مہر واجب الادا ہوتی ہے۔
بھائی ولید اور بہن نورا کی شادی اپنے چچا زاد بھائی بہنوں سے ہوئی لیکن دونوں خاندانوں نے مہر ادا کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں شادیاں ایک دوسرے پر منحصر نہیں ہوں گی۔
بچے اس شادی کے لیے تیار نہیں تھے اور انھوں نے دبے لفظوں میں اسے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن ولید کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں بڑوں کی مرضی کے خلاف نہیں جایا جاتا۔
ولید کی ازدواجی زندگی میں نو ماہ بعد اس وقت پریشانیاں شروع ہوئيں جب اس نے اپنے اہل خانہ کی خواہشات کے خلاف اپنی اہلیہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔
اس کے جواب میں ولید کے بہنوئی نے نورا کو ان کے گھر واپس روانہ کر دیا حالانکہ ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار تھی۔
ولید کا کہنا ہے: ’مجھے اپنی بہن کے لیے افسوس ہے لیکن میں اپنی ازدواجی زندگی کو کسی طرح آگے نہیں لے جا پا رہا تھا۔‘
خوش قسمتی سے رشتہ داروں اور دوستوں کی مداخلت سے نورا پھر سے اپنے شوہر کے ساتھ ہیں، لیکن وٹا سٹا شادیاں سب کے لیے اچھی ثابت نہیں ہوتيں۔