اٹلی کا شہر وینس یورپ کے ان شہروں میں سے ایک مانا جاتا تھا جہاں مسلمانوں کو نماز کے لیے مناسب مقام دستیاب نہیں تھا تاہم اب پانی کے اوپر بسے اس شہر میں ایک سابق کیتھولک چرچ کو مسجد کی شکل دی جارہی ہے۔
آرٹسٹ کرسٹوفر بچل وینس میں مسلمانوں کی پہلی مسجد کو تیار کررہے ہیں۔
تاریخی شہر وینس میں پہلی مسجد نامی اس منصوبے کے تحت کیتھولک چرچ سانتا ماریا ڈیل ابازیہ ڈیلا میسریکورڈیا کی 10ویں صدی کی عمارت کو مسلمانوں کی عبادت گاہ کی شکل دی جارہی ہے۔
یہ چرچ گزشتہ چالیس برسوں سے بند پڑا ہے اور اسے وینس بایننالی آرٹ نمائش کے لیے مکمل فعال مسجد کی شکل میں تبدیل کیا جارہا ہے اور اگلے سات ماہ تک وہ قائم رہے گی جس کے بعد اس کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
جمعے یعنی آٹھ مئی کو اس چرچ کے دروازے مسلمانوں کے بطور مسجد کھل جائیں گے اور یہاں کی دیواروں پر عربی خطاطی کے نمونے آویزاں کیے جاچکے ہیں جبکہ فرش پر نماز پڑھنے کے لیے قالین اور صلیب کے نشانات کو محرابوں کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔
وینس میں مسلم برادری کے صدر محمد امین الاحداب کا کہنا ہے کہ کئی بار آپ کو اپنے آپ کو نمایاں کرنا پڑتا ہے اور ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ پرامن مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ اپنی ثقافت بھی لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں مسجد کا قیام ہماری برادری کا بہت پرانا خواب ہے جو وینس کے تاریکی سینٹر میں اس کا قیام چاہتے تھے یہ وہ جگہ ہے جہاں متعدد مسلمان اپنے روزگار کے لیے روز آتے ہیں اور وہاں انہیں نماز کے لیے کوئی مناسب جگہ دستیاب نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا ” ہزاروں مسلمان سیاح ہر ماہ وینس آتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ آخر یہاں کوئی مسجد کیوں نہیں حالانکہ یہاں اسلامی تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے”۔
خیال رہے کہ مانا جاتا ہے کہ میکنیکل طریقے سے قرآن مجید کو پہلی بار پرنٹ کرنے کا کام وینس میں ہوا تھا اور یہ 16 ویں صدی کا زمانہ تھا جب عثمانی خلافت کی مارکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے وینس کے تاجروں نے یہ کام شروع کیا۔
اس منصوبے کے دوران وینس کے حکام کی جانب سے کافی اعتراضات بھی اٹھائے گئے اور گزشتہ ماہ تو ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ اس کا قیام ناممکن ہوجائے گا کیونکہ وینس کی پولیس نے اس مسجد کو ایک سیکیورٹی خطرہ قرار دینے کا خط آئس لینڈک آرٹ سینٹر کو بھیجا جس کے زیرتحت اس مسجد کا قیام عمل میں آرہا ہے۔
تاہم سوئس آرٹسٹ اور دیگر افراد نے وکلاءکے مشورے سے اس کام کو جاری رکھا اور بدھ کو افتتاح کی باضابطہ تقریب سے پہلے ہی یہاں ایک مقامی امام کے پیچھے مسلمانوں کے چھوٹے سے گروپ نے نماز پڑھی۔