مولانا ندیم احمد انصاری
اللہ کے حقیقی بندوں کے لیے اس دن سے زیادہ کسی دن کی کوئی فضیلت و اہمیت نہیں ہو سکتی، جس دن انھیں جہنم سے نجات کا پروانا نصیب ہو جائے، اس لیے اسلام میں عیدین کا جو تصور ہے وہ یہی کہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے مخصوص احکامات کی انجام دہی ہوتی ہے اور ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اپنے بندوں پر نازل ہوتی ہے۔ یومِ عرفہ بھی ان معنوں میں گویا کہ عید ہی کا دن ہے اور یہ مضمون ایک حدیث میں بھی صراحتاً یوں وارد ہوا ہے؛
مسلمانوں کی خوشی کا دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک! یومِ عرفہ، یومِ نحر اور ایامِ تشریق ہم اہلِ اسلام کے لیے(گویا) عید(بمعنی خوشی) کے دن ہیں(اس لیے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے)۔(نسائی، ترمذی)
عرفہ کی وجہ تسمیہ
عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، بایں طور کہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں لیکن عرفات جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔ عرفات، مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے پندرہ میل (۰۲-۵۲کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے، یہ ایک وسیع میدان ہے جو اپنے تین طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے، اس کے درمیان میں شمالی جانب جبلِ رحمت ہے۔
عرفات کی وجہِ تسمیہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں، کہا جاتا ہے کہ(۱)حضرت ا دم ؑاور حضرت حوا ؓ جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے، اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔(۲)ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل ؑ جب اس جگہ حضرت ابراہیم ؑکو افعالِ حج کی تعلیم دے رہے تھے تو وہ اس دوران ان سے پوچھتے؛ عرفتَ؟یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے، کیا تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم ؑ جواب میں کہتے؛ عرفتُ۔ ہاں میں نے جان لیا۔آ خر کار دونوں کے سوال وجواب میں اس کلمے کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد اقوال ہیں۔(مظاہر حق جدید)
وقوفِ عرفہ کی اہمیت
وقوفِ عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدانِ عرفات میں پہنچنا اس کے حج کی ادایگی کے سلسلے میں سب سے بڑا رُکن ہے، جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چناں چہ حج کے دو رکنوں؛ طواف الافاضہ اور وقوفِ عرفات میں وقوفِ عرفات چوں کہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے، اس لیے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔(مظاہر حق جدید) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حج تو عرفہ ہی ہے۔ (نسائی)
عرفہ اور قرآنِ کریم
قرا نِ کریم میں بھی عرفہ کا ذکر موجود ہے،ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:والفجر، ولیال عشر، الشفع والوتر ۔(سورہ فجر)قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جُفت کی اور طاق کی۔
حضرت ابو ازبیرؓ نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایاہے:یہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور فرمایا کہ وتر سے مراد یومِ عرفہ اور شفع سے مراد یومِ نحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) ہے۔(شعب الایمان)علامہ قرطبی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ اسناد کے اعتبار سے اصح ہے، بہ نسبت دوسری حدیث کے، جو کہ حضرت عمران بن حصینؓ کی روایت سے نقل ہوئی ہے، جس میں شفع و وتر نماز کا ذکر ہے۔(معارف القرا ن)
یہ آ یتیں عشرہ ¿ ذی الحجہ، یومِ عرفہ اور یومِ نحر کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا کسی چیز کی اہمیت و عظمت بیان کرنے کے لیے ہی ہوا کرتا ہے۔ یومِ عرفہ کی اللہ تعالیٰ نے سورہ بروج میں(وشاہد و مشہود) کہہ کر بھی قسم کھائی ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ یہاں شاہد سے مراد؛ یوم جمعہ اور مشہود سے مراد یومِ عرفہ ہے۔(تفسیر زاد المیسر)نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:فÊذا ا¿فضتم من عرفات فاذکروا اللّٰہ عند المشعر الحرام۔ پس جب تم لوگ عرفات سے لوٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔(سورہ بقرہ)
اہلِ عرب اور وقوفِ عرفہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور اس قیام کو حُمس کہتے تھے اور باقی تمام عرب کے لوگ بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے، جب دینِ اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں۔(سورہ بقرہ)
بندوں کی معافی کا دن
حضرت ابن مسیب سے روایت ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے ا زاد نہیں کرتا اور اللہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سارے بندے کس ارادے سے آئے ہیں؟(مسلم)گویا ان کے دل میںجو ارمان و ارادہ ہو، اسے پورا کر دیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:بے شک!اللہ تعالیٰ اہلِ عرفات کے سبب آسمان والوں(یعنی فرشتوں) پر فخر فرماتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو یہ میرے حضور پراگندہ بال اور گرد آلود آئے ہیں۔(ابن حبان)
ایک روایت میں فرشتوں پر فخر کرنے کے ساتھ انھیں اپنے بندوں کی معافی پر یوں گواہ بنانے کا بھی ذکر ہے؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آ سمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے( اہلِ عرفات پر) فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے بندوں کی طرف دیکھو، یہ میرے حضور پراگندہ بال، گر آ لود اور تکبیر کی ا وازیں بلند کرتے ہوئے دور دراز سے آئے ہیں، میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انھیں بخش دیا۔ یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں؛ اے ہمارے رب! (ان میں) فلاں شخص بھی ہے، جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں عورت بھی ہے، جو گنہ گار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:میں نے انھیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی دن ایسا نہیں، جس میں یومِ عرفہ کے برابر لوگوںکو دوزخ کی آ گ سے آزاد کیا جاتا ہو۔(الترغیب)
شیطان کی رسوائی کا دن
حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار ، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔(شعب الایمان)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ان بخشے ہوئے بندوں میں شامل فرما لے۔ آ مین(ےو اےن اےن)