لکھنؤ(بیورو)۔ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں گزشتہ ایک ہفتہ سے جماوڑا لگا کر آر ایس ایس یہاں کے سیاسی ماحول کو بھانپنے کی کوشش کررہی ہے ۔ آر ایس ایس کے نشانے پر اس مرتبہ دو ہزار سترہ کا اسمبلی الیکشن ہے ۔ وہ یہاں غور کرکے فتح کا نسخہ تلاش رہی ہے ۔ الیکشن میں پردے کے پیچھے سے بی جے پی کی مدد کرنے والا سنگھ اس بار یوپی کا اقتدار بی جے پی کی جھولی میں ڈالنے کے لئے ابھی سے مصروف ہوگیاہے ۔ یہاں ووٹوں کی تقسیم کو دیکھتے ہوئے سنگھ نے بھی اپنا پینترا بدل دیا ہے ۔ یہاں کے پسماندہ ، دلت ووٹروں کے ساتھ ساتھ سنگھ کی نظر ریاست کی بیس فیصد آبادی والے مسلم طبقہ پر بھی ہے ۔ یہاں آر ایس ایس کے جلسہ کا مقصد بی جے پی کے لئے زمین تیار کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ نے لو جہاد سے اپنا دامن جھاڑ لیا۔ اسے مسلمانوں سے کوئی پرہیز نہیں ہے ۔ سنگھ کے ڈاکٹر منموہن وید نے آج کہا کہ آر ایس ایس تمام ذاتوں اور مذاہب کی تنظیم ہے ۔تنظیم میں سبھی کا خیر مقدم ہے ۔ کوئی
بھی اس کی شاخہ کا رکن بن سکتا ہے ۔ مسلمانوں سے بھی کوئی پرہیز نہیں ہے ۔ ناگپور میں کچھ مسلمان بھی آر ایس ایس کی شاخہ میں آتے ہیں ۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ لو جہاد لفظ سنگھ کی دین تھا۔ اس کا مقصد جو بھی ہو چاہے اس لفظ کی ناکامیابی ہو یا پھر سنگھ اس داغ سے اپنے دامن کو دھونا چاہتا ہے ۔حال ہی میں ریاست میں ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے لو جہاد کو زور شور سے اٹھایا تھا لیکن یہ داؤ اس کا بھی طرح ناکام ہوگیااور اسے بڑی شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔
مبصرین کی مانے تو یوپی کی سیاست ذات پات کی بنیاد پر منحصر ہے ۔ یہاں مسلم ووٹوں کی بھی کافی اہمیت ہے ۔ کئی نسشتوں پر مسلم فیصلہ کن کردار نبھاتے ہیں ۔ بی جے پی چھوڑ سبھی پارٹیاں مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک مانتی ہے ۔ یوپی کے مزاج کو بھانپنے کے لئے ہی سنگھ نے یہاں جلسہ کرنے کا فیصلہ لیاہے ۔ تاکہ وہ ۲۰۱۷کا سیاسی پلیٹ فارم بی جے پی کے لئے تیار کرسکے ۔