روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ مغرقی ملک یوکرینی فوجیوں کی جانب سے عام شہریوں کو براہِ راست نشانہ بنائے جانے پر خاموش
ہیں
یوکرینی فوجیوں نے روس نواز باغیوں سے شدید جھڑپوں کے بعد لوہانسک نامی شہر کے ایئرپورٹ سے دستے واپس بلا لیے ہیں۔
رات بھر ہونے والی جھڑپوں کے بعد یوکرینی سیکورٹی کونسل نے پیر کی صبح اعلان کیا کہ یوکرینی افواج ’ترتیب وار طریقے‘ سے لوہانسک ایئرپورٹ سے دستبردار ہوگئی ہیں۔
تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق ایئرپورٹ کے نزدیک دونیتسک شہر میں اب بھی جھڑپیں جاری ہیں جبکہ علیحدگی پسندگروہوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یوکرینی افواج کی دو پلاٹونوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ادھر یوکرین اور روس کے صدور کے درمیان بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں مشرقی یوکرین کے بحران پر ہونے والے پہلے براہِ راست مذاکرات میں بظاہر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
اس کے بعد دونوں ملکوں کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہونا ہے جس میں یورپ سے حفاظتی اور باہمی تعلقات کے ادارے کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔
مشرقی یوکرین کے دونیتسک اور لوہانسک کے علاقوں میں جاری لڑائی میں اب تک 2600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یوکرین میں جاری تنازع اس برس اپریل میں اس وقت شروع ہوا تھا جب روس نے جنوبی خطے کرائمیا کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
بیلاروس میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا مرحلہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تھا
مشرقی طاقتوں کا کہنا ہے کہ روس باغیوں کو اسلحہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے فوجیوں کو بھی لڑائی کے لیے وہاں بھیج رہا ہے جبکہ روس اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کے فوجی اہلکار مشرقی یوکرین میں باغیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ مشرقی طاقتیں یوکرینی فوجیوں کے عام شہریوں کو براہِ راست نشانہ بنائے جانے پر خاموش ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ باغیوں کی طرف سے جو ردِ عمل سامنے آرہا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والوں کا ایک فطرتی ردِ عمل ہے۔
خیال رہے کہ یورپی یونین نے روس کو یوکرین میں مداخلت روکنے کے لیے ایک ہفتے کی محلت دی ہے جس کے بعد ان کا کہنا ہے کہ روس پر مزید اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں گی۔
یورپ اور امریکہ نے پہلے ہی روسی سرکاری اور تجرتی شخصیات کے غیر ملکی اثاثوں اور ان کے یورپ اور امریکہ میں سفر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔