علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ دیبالستیوے میں معاہدے کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ وہ شہر محاصرے میں ہے
روسی صدر ولادمیر پوتن نے کہا ہے کہ انھیں خدشہ تھا کہ جنگی بندی کے معاہدے کے باوجود مشرقی یوکرین میں لڑائی جاری رہے گی۔
صدر پوتن نے مزید کہا کہ لڑائی کی شدت میں گزشتہ ہفتے ہونے والے جنگی بندی کے معاہدے کے بعد سے واضح کمی آئی ہے۔
مشرقی یوکرین کے شہر دیبالستیو میں منگل کے روز دن بھر شدید لڑائی جاری رہی اور روس نواز باغیوں نے شہر کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کی نگرانی کرنے والے عالمی مبصرین دیبالستیو تک نہیں پہنچ سکے۔ دیبالستیو باغیوں
اور یوکرین کی فوج کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ شہر باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں دونستک اور لوہانسک کو ریل کے ذریعے ملانے کا واحد راستے ہے۔
یوکرین کے صدر پیٹرو پروشنکو نے باغیوں کی طرف سے دیبالستیو پر قبضے کی کوشش کو جنگ بندی کے معاہدے پر حملہ قرار دیا ہے۔
صدر پروشنکو نے جرمن چانسلر آینگلا میرکل سے فون پر بات چیت کے بعد ایک بیان میں کہا کہ دنیا کو حملہ آوروں کو روکنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور قواعد کی مزید خلاف ورزیاں اور یورپ کے وسط میں جنگ چھڑنے سے روکنے کی کوشش کریں۔‘
دریں اثنا روسی صدر نے ہنگری کے دورے کے دوران کہا کہ لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے اور ساتھ ہی انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ فریقین جنگ بندی پر عمل کریں گے۔
صدر پوتن نے کہا کہ اس بحران کا حل فوجی ذریعے سے ممکن نہیں لیکن جو کچھ دیبالستیو میں ہو رہا ہے وہ ناقابل فہم اور توقعات کے برعکس نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ امید کرتے ہیں کہ یوکرین کے حکام یوکرین کے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے سے نہیں روکیں گے اور اگر وہ اپنے آپ کو باغیوں کے حوالے کر دیتے ہیں تو انھیں ان کے گھروں کو واپس جانے دیا جائے گا۔‘
دیبالستیو میں یوکرین کے درجنوں فوجیوں کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہو رہیں ہیں
دیبالستیو میں درجنوں یوکرین فوجیوں کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے جبکہ یوکرین کے حکام نے دعوی کیا ہے اسلحہ اور بارود ختم ہونے کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا اطلاق اس علاقے پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ شہر محاصرے میں ہے۔
انھوں نے محصور یوکرینی فوج کو وہاں سے نکلنے کے لیے ایک محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کی ہے۔
فرانس، جرمنی اور امریکہ نے دیبالستیو میں جاری لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یوکرین کی فوجی کمان کا کہنا ہے کہ روس نواز باغیوں نے اتوار کی صبح سے سو سے زیادہ حملے کیے ہیں اور زیادہ تر حملے دیبالستیو اور اس کے اطراف میں ہوئے ہیں۔
یوکرین کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ساحلی شہر میریوپول کے پاس بھی جنگ جاری ہے۔
منسک میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بھاری اسلحوں کو جنگی محاذ سے واپس لیا جانا تھا تاکہ 50 سے 140 کلو میٹر چوڑا بفر زون تیار ہو سکے
باغیوں نے یوکرین کی فوج پر دونیتسک کے ہوائی اڈے پر فائرنگ کا الزام لگایا ہے۔
دریں اثنا روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کا نفاذ عمل میں آ گیا ہے۔
ان نئی پابندیوں میں 19 ا ہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جب میں سے زیادہ تر روس نواز باغیوں کے مضبوط گڑھ دونیتسک اور لوہانسک سے تعلق رکھتے ہیں تاہم ان میں دو روسی نائب وزرا برائے دفاع اور ایک روسی گلوکار اور رکن پارلیمان آیوسف کوبزون بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ہفتے منسک میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بھاری اسلحے کو جنگی محاذ سے واپس لیا جانا تھا تاکہ 50 سے 140 کلومیٹر چوڑا بفر زون تیار ہو سکے۔
لیکن روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق یوکرین کے ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ ’بھاری اسلحہ واپس نہیں جائے گا کیونکہ باغی ابھی بھی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘
باغیوں کے کمانڈروں نے بھی کہا ہے کہ بھاری اسلحے کا جنگی محاذ سے ہٹانے کا کوئی جواز نہیں۔
دوسری جگہوں پر جنگ بندی کے معاہدے کی بہت حد تک پاسداری کی جا رہی ہے
باغیوں کے ’وزیر دفاع‘ ولادیمیر کونونو نے کہا: ’ہم محاذ سے اسی وقت بھارے اسلحہ ہٹائیں گے جب ہم یوکرین کی جانب سے اسی قسم کا یقینی اشارہ پائيں گے۔‘
یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے مبصرین دیبالستیو پہنچنے کی کوشش میں ہیں ہر چند کہ اتوار کو باغیوں نے انھیں وہاں جانے سے روک دیا ہے۔
جرمنی کی چانسلر آنگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ او ایس سی ای کو مشرقی یوکرین میں جانے کی آزادی دی جائے۔
دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ کو ’دیبالستیو اور اس کے نواح میں حالات کے ابتر ہوتے جانے پر بہت تشویش ہے‘ اور وہ ’روس اور ان علیحدگی پسندوں سے فورا جنگ بندی کے لیے کہتا ہے جن کی روس حمایت کرتا ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق دوسری جگہوں پر جنگ بندی کے معاہدے کی بہت حد تک پاسداری کی جا رہی ہے۔