پاکستانی ڈراموں کا جادو ہمیشہ سے لوگوں پر چلتا رہا ہے اور جب بھی ڈراموں کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں کچھ چہرے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں جو اس کے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔جی یہ ہیں اداکار اور اداکارائیں جن کے بغیر کسی ڈرامے کی مقبولیت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ مضبوط اور اچھی کہانی کو اپنی کردار نگاری کے ذریعے پردہ اسکرین پر بہترین انداز میں پیش کرنا ہی کسی ڈرامے کی کامیابی کی بنیادی ضمانت ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹی وی کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے شروع سے ہی ایسے اداکا
روں کی خدمات حاصل رہی ہیں جن کے کام پر مبنی ڈراموں نے تہلکہ سا مچا کر رکھ دیا اور ہم نے ان میں سے ہی چند اداکارائوں کو منتخب کیا ہے جو محض شو پیس کی بجائے بہترین اداکاری کی بناء پر جانی جاتی تھیں۔
روحی بانو:دس اگست۱۹۵۱ کو کراچی میں پیدا ہونے والی روحی بانو کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں ٹی وی کو جنم لیتے اور بنتے دیکھا۔ انہوں نے طلعت حسین، راحت کاظمی اور دوسرے ٹاپ ہیروز کے ساتھ ہٹ ڈرامے ٹیلی ویڑن کو دیے۔ اپنی بے ساختہ اور نیچرل اداکاری سے ٹی وی اسکرین پر راج کرنے والی روحی بانو نے کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ، کانچ کا پل اور دیگر لاتعداد کلاسیک ڈراموں میں یادگار کردار ادا کرکے ناظرین کے دل جیتے۔ ڈراموں میں حقیقت سے قریب تر اداکاری کرنا ان کی اداکاری کی خاصیت تھی اور پرائڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز جیتے تاہم ذاتی زندگی کے دکھوں اور۲۰۰۵ میں نوجوان بیٹے کی اچانک موت کے باعث ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا۔
شہناز شیخ:لاہور میں جنم لینے والی شہناز شیخ بھی پاکستان ٹیلیویڑن کی لیجنڈ اداکار ہیں جو اسی کی دہائی میں چھوٹی اسکرین پر چھائی رہیں۔ انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ۱۹۸۰ میں شعیب ہاشمی کی تحریر کردہ سیریل سے کیا تاہم وہ کچھ اقساط کے بعد ہی بند کردیا گیا تاہم شہناز کی اداکاری توجہ کا مرکز بن گئی اور انہیں ‘ان کہی’ میں مرکزی کردار کی پیشکش ہوئی جسے حسینہ معین نے تحریر اور شعیب منصور نے ہدایات دیں۔ان کہی سے شہرت حاصل کرے کے بعد ان کا اگلا ڈرامہ ‘مرے تھے جن کے لیے’ نے بھی زبردست کامیابی حاصل کی تاہم انہیں عروج کی بلندیوں پر پہنچانے والا سیریل ‘تنہائیاں’ تھا جس کی ہدایات شہزاد خلیل نے دیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ راج کپور نے انہیں اپنی فلم ‘حنا’ میں کام کرنے کی بھی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کردیا، بعد میں وہ ‘انکل سرگم’ اور ‘یس سر نو سر’ جیسے شوز میں بھی نظر آئیں مگر نوے کے وسط میں شادی کے بعد انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔
مرینہ خان:مرینہ خان۲۶ دسمبر۱۹۶۲کو پشاور میں پیدا ہوئیں اور شروع سے ہی کافی شوخ و چنچل شخصیت کی مالک تھیں اور والد کے ایئرفورس میں ہونے کی وجہ سے مسلسل ایک سے دوسرے شہر منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ مرینہ خان نے اداکاری کا کریئر لانگ پلے ‘راشد منہاس’ سے کیا اور اس کے بعد ہی کلاسیک سیریل ‘تنہائیاں’ میں کام کرنے کا موقع ملا جس کے ساتھ ہی انہوں نے شہرت کی بلندی کو چھو لیا۔اس کے بعد وہ مسلسل احساس، دھوپ کنارے، نجات، فرار، تم سے کہنا تھا، خالی ہاتھ اور تنہائیاں جیسے سپر ہٹ ڈراموں میں کام کیا، اب بھی وہ اداکاری کے ساتھ ڈائریکشن و پروڈکشن جیسے شعبوں میں مصروف ہیں۔
بشریٰ انصاری:کراچی میں آنکھ کھولنے والی بشریٰ انصاری بچپن سے ہی اداکاری سے دلچسپی رکھتی تھیں جس کی وجہ گھر کا ماحول بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے والد معروف صحافی و ادیب احمد بشیر تھے اور صرف نو سال کی عمر میں انہوں نے بچوں کے میوزک شو ‘کلیوں کی مالا’ سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔بعد میں ان کے والدین اسلام آباد منتقل ہوئے تو وہاں ان کی ملاقات فاروق قیصر (انکل سرگم) سے ہوئی جنھوں نے بشریٰ کو اپنے شو ‘کلیاں’ کا حصہ بنا لیا، ان کی پہلی ڈرامہ سریل اقبال انصاری کی پروڈکشن تھی اور اس کے بعد سے وہ مسلسل کئی ناقابل فراموش شوز کا حصہ بن چکی ہیں جن میں آنگن ٹیڑھا، شو ٹائم، ففٹی ففٹی، شوشا، رنگ ترنگ اور ایمرجنسی وارڈ کے ساتھ دیگر شامل ہیں، وہ اداکار ہونے کے ساتھ گلوکار، کمپیئر، ماڈل، رائٹر اور بہت کچھ رہ چکی ہیں اور ابھی بھی شوبز کی دنیا میں پوری توانائی سے سرگرم ہیں، انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد اعزازات ملے ہیں۔
طاہرہ واسطی:سرگودھا میں۱۹۴ میں پیدا ہونے والی طاہرہ واسطی پہلے لاہور اور پھر کراچی میں منتقل ہوئیں اور ۱۹۶۸ میں پی ٹی وی سے اداکاری کا آغاز اور پھر اسی و نوے کی دہائیوں میں اپنے کریئر کے عروج کو پہنچیں۔ شاہانہ کردار بخوبی ادا کرنے پر انھیں رانی اور شہزادی کے نام سے جانا جاتا تھا، طاہرہ واسطی نے متعدد مشہور ٹیلی ویڑن ڈراموں میں کردار کیے جن میں سے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کی ایک کہانی ’جیب کترا‘ بھی شامل ہے۔ ان کے مشہور ڈرامہ سیریلز میں جانگلوس، کشکول، شاہین، شمع، آخری چٹان، افشاں، دلدل اور فشار شامل تھے۔طاہرہ واسطی طویل علالت کے بعد۲۰۱۲میں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئیں ان کے شوہر رضوان واسطی بھی ایک باکمال اداکار اور براڈکاسٹر تھے اور ان کا انتقال۲۰۱۱میں ہوگیا تھا۔
خالدہ ریاست:لاکھوں ناظرین کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے متاثر کرنے والی خالدہ ریاست یکم جنوری۱۹۵۳ کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ باصلاحیت فنکار نے اپنے فنی کریئر کا آغاز ۰۷کی دہائی میں ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ہمراہ اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن انہیں مقبولیت معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ملی، جس کو پی ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسر محسن علی نے پروڈیوس کیا تھا۔ انور مقصود کے اسکرپٹ پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل ‘ہاف پلیٹ‘ میں ان کی اداکار معین اختر کے ساتھ کلاسیک کردار نگاری ڈرامہ شائقین کو آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے اپنی ہم عصر فنکاروں روحی بانو، عظمیٰ گیلانی اور دیگر کے سامنے لاتعداد ڈراموں اور سیریل میں کام کیا۔ان کے مشہور ڈراموں میں پناہ، بندش، دھوپ، دیوار، کھویا ہوا آدمی، سلور جوبلی، تعبیر، اب تم جاسکتے ہو اور پڑوسی کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔ فنکارانہ زندگی ملک کے دیگر شہروں میں گزارنے کے بعد زندگی کے آخری ایام انہوں نے مقامی اسپتال میں خفیہ طور پر بسر کیے، وہ سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں۔ خالدہ ریاست کی آخری ڈرامہ سیرئل ‘پڑوسی’ تھی جس کے بعد انہوں نے فنی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی، لوگوں کو خوشیاں دینے والی یہ باصلاحیت اداکار۲۶ اگست ۱۹۹۶ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔
بدر خلیل:لاہور میں پیدا ہونے والی بدر خلیل جنھیں بدو آپا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو لیجنڈ سمجھی جاتی ہیں، انہوں نے ۱۹۶۸ میں بچوں کے شوز کی میزبانی کرکے کریئر کا آغاز کیا تاہم انہیں پی ٹی وی کے ڈرامے ‘بی جمالو’ میں مرکزی کردار ادا کرنے پر شہرت ملی اور یہ سلسلہ اب تک تھما نہیں۔بدر خلیل لاہور سے کراچی اپنے شوہر شہزاد خلیل کے ساتھ منتقل ہوگئیں اور وہاں ان کا پہلا بڑا کلاسیک ڈرامہ ‘ان کہی’ تھا جس کے بعد تنہائیاں، دھوپ کنارے، تم سے کہنا تھا، چاندنی راتیں، فرار، پڑوسی، خالی ہاتھ، ہاف پلیٹ اور دیگر لاتعداد ہٹ ڈراموں کے ذریعے خود کو بہترین اداکار منوایا اور اب بھی وہ مختلف چینلز میں سرگرم ہیں۔
ذہین طاہرہ:کراچی سے تعلق رکھنے والی ذہین طاہرہ پی ٹی وی کی تاریخ کی سب سے سینئر اور بزرگ اداکار ہیں جو شروع سے ہی ٹی وی اسکرینوں پر چھائی ہوئی ہیں اور اب تک سات سو سے زائد ڈراموں میں کام کرچکی ہیں۔ انہیں پی ٹی وی کے سب سے مقبول ترین ڈرامے ‘خدا کی بستی’ میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ دل دیا دہلیز، انوکھا بندھن، خالہ خیرن، جینا اسی کا نام ہے، چاندنی راتیں، شمع، زینت، عروسہ، عجائب خانہ، راستے دل کے اور دیگر لاتعداد کاسیک ڈراموں میں جلوہ گر ہونے کا موقع بھی ملا۔نو نومبر ۱۹۵۹ کو لاہور میں پیدا ہونے والی روبینہ اشرف کی صلاحیت سے کون انکار کرسکتا ہے جنھوں نے گرافکس ڈیزائننگ میں گریجویشن کرنے کے باوجود ٹی وی کی دنیا سے ناطہ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور اشفاق احمد کے تحریر کردہ ڈرامے کے ذریعے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد کسک، پرچھائیاں، ساون روپ، پس آئینہ، ایک آدھا ہفتہ، یاریاں اور دیگر متعدد ڈراموں کے ذریعے اپنے آپ کو ڈرامہ صنعت کی چند بہترین اداکارائوں میں سے ایک منوایا۔
ثمینہ پیرزادہ:ٹی وی، فلم اور تھیٹر ہر جگہ اپنے منفرد انداز سے لوگوں کو دیوانہ بنا دینے والی ثمینہ پیرزادہ نے اپنی آنکھ لاہور میں نو اپریل۱۹۵۵کو کھولی اور کامرس میں گریویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ہی اداکاری کی جانب دلچسپی کا اظہار کیا۔ عثمان پیرزادہ سے۱۹۷۵میں شادی کے بندھن سے بندھنے کے بعد انہوں نے فلم ‘نزدیکیاں’ میں کام کیا جس کے بعد وہ متعدد فلموں میں نظر آئیں تاہم اصل شہرت ٹی وی ڈراموں سے ہی ملی جس میں انا، کلموہی، رات ، حصار اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ثمینہ ایک بہترین ہدایتکار بھی ہیں، انھوں نے فلموں اور ڈراموں دونوں جگہ اپنا لوہا منوایا ہے۔ اس وقت بھی وہ مختلف چینلز میں نظر آنے کے ساتھ فلموں میں بھی کام کرنے میں مصروف ہیں۔
عظمیٰ گیلانی:پی ٹی وی کی تاریخ میں اداکارائوں کا ذکر ہو اور عظمیٰ گیلانی کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں، ایک بے مثال اداکار، مضبوط خاتون اور متعدد کے لیے رول ماڈل عظمیٰ گیلانی نے اپنی زندگی میں متعدد چیلنجز اور مشکات کا سامنا کیا مگر اس کے باوجود وہ ملک کی ممتاز ترین اداکارایں میں سے ایک سمجھی جاتی ہیں۔ ستر کی دہائی میں اشفاق احمد کی سیریل ‘قلعہ کہانی’ سے اپنے کریئر کاآغاز کیا اور انہیں عروج امجد اسلام امجد کے تحریر کردہ ڈرامے ‘وارث’ سے ملا جس میں انہوں نے جاگیردار گھرانے کی ایک ماڈرن اور خود مختار خاتون کا کردار ادا کیا۔اکثر ڈراموں میں مضبوط خاتون کے کردار میں ہی نظر آتی ہیں مگر المیہ اداکاری میں بھی ان کا جواب نہیں جس میں قابل ذکر ‘پناہ’ ہے جو افغان مہاجرین کے اوپر تھا۔ اسی طرح اور ڈرامے، بدلتے قالب، نشیمن، پگلی، بے وارث، نیلے ہاتھ اور دیگر متعدد کلاسیک ڈراموں میں کام کیا تاہم کرئیر کے عروج میں انہیں کینسر کا بھی سامنا رہا مگر پھر بھی وہ اپنا معیار برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں اور اب بھی وہ ٹی وی ڈراموں میں مصروف عمل ہیں۔
عتیقہ اوڈھو:بارہ فروری ۱۹۶۸کو کراچی میں پیدا ہونے والی عتیقہ اوڈھو اپنی پْرکشش شخصیت اور بہترین اداکاری کی بنا ء پر جانی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیلیویڑن شوز کی میزبانی اور سیاست جیسے مشکل میدانوں میں سرگرم ہیں۔ عتیقہ اوڈھو نے انور مقصود کے تحریر کردہ ڈرامے ‘ستارہ اور مہرالنساء’ کے ذریعے ٹیلیویڑن پر کامیاب ڈیبیو کیا اور اس کے بعد دشت، تلاش، عکس، انگار وادی، جنون، آن، کرچیاں، نجات، ذکر ہے کئی سال کا اور دیگر کے ذریعے عروج حاصل کیا۔انہوں نے کئی کامیاب فلموں جیسے جو ڈر گیا وہ مرگیا، ممی اور مجھے چاند چاہئے میں بھی کام کیا۔ ابھی بھی وہ ٹی وی چینلز پر نظر آتی ہیں خاص طر پر ان کا ڈرامہ ‘ہمسفر’ رواں دہائی کا سب سے کامیاب سیریل قرار دیا جاتا ہے۔
ماہ نور بلوچ:چودہ جولائی۱۹۷۰ کو امریکا میں آنکھ کھولنے والی ماہ نور بلوچ پاکستان کی ممتاز اداکار و ماڈل ہیں جن کی شادی پندرہ سال کی عمر میں ہی ہوگئی تھی مگر اس کے بعد وہ ٹی وی اسکرین پر آئیں اور چھا گئیں۔ انہوں نے ۲۳سال کی عمر میں یعنی ۱۹۹۳میں ‘ماروی’ ڈرامے سے اپنے کریئر کا آغاز کیا جبکہ اس کے بعد ان کا ڈرامہ ‘دوسرا آسمان’ انہیں شہرت دلانے میں کامیاب رہا، جس کے بعد شدت، صلہ، کبھی کبھی پیار میں، چاندنی راتیں، یہ زندگی اور دیگر ڈراموں کے ذریعے ٹی وی لیجنڈ بن گئیں، ۲۰۰۰میں ماہ نور بلوچ نے اپنی ڈراما سیریلز ڈائریکشن اور پروڈکشن کا سلسلہ شروع کیا اور بطور ڈائریکٹر پہلا ڈراما ‘صلہ’ تیار کیا، اس کے علاوہ وہ ‘میں ہوں شاہد آفریدی’ کے ذریعے فلمی دنیا کا بھی حصہ بن چکی ہیں۔
ثانیہ سعید:اٹھائیس اگست ۱۹۷۲ کو کراچی میں آنکھ کھولنے والی ثانیہ سعید بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی میزبان بھی ہیں۔ انہوں نے آٹھ مارچ ۱۹۸۹کو ڈرا مے ‘عورت’ کے ذریعے ٹیلیویڑن کی دنیا میں قدم رکھا جبکہ وہ این ٹی ایم کی پہلی اناینسر بھی تھیں مگر انہیں اصل شہرت حسینہ معینہ کی تحریر اور ساحرہ کاظمی کی ہدایات میں بننے والے ڈرامے ‘آہٹ’ سے ملی جس کے بعد ‘ستارہ اور مہرالنسا ‘ جیسی سپر ہٹ سیریل سے وہ اسٹار بن گئیں، ان کے دیگر مشہور ڈراموں میں تپش، زیب النساء ، اور زندگی بدلتی ہے، کہانیاں، کلموہی، روشن، ہوا ریت اور آنگن، آئی کہانی بنتے ہیں، اب تم جا سکتے ہو، شاید کے بہار آجائے اور دیگر شامل ہیں، جبکہ تھیٹر کی دنیا سے وہ شروع سے ہی وابستہ ہیں اور اب ان کی زیادہ دلچسپی بھی اسی میدان سے وابستہ ہے۔
شگفتہ اعجاز:گجرات کی سرزمین پر پانچ مئی ۱۹۶۹کو پیدا ہونے والی شگفتہ اعجاز نے شروع سے ہی تہلکہ خیز ڈراموں سے جو عروج حاصل کیا وہ ابھی تک برقرار ہے۔ شگفتہ نے ۱۹۸۹ میں ‘جانگلوس’ جیسی سدا بہار سیریل کے ذریعے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر ‘آنچ’ کے ذریعے شہرت کی بلندی پر پہنچ گئیں، جس کے بعد پرچھائیا ں ، جینا تو یہی ہے، آنسو، چاند اور چندا، ہم سے جدا نہ ہونا اور دیگر ڈراموں میں کام کیا۔ اب بھی وہ متعدد ڈراموں میں جلوہ گر ہو رہی ہیں اور کریکٹر ایکٹر کے طور پر بھی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ماریہ واسطی:یوم آزادی کے دن۱۹۸۰کو تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں آنکھ کھولنے والی ماریہ واسطی کو ٹی وی کی دنیا سے جڑے تیسری دہائی ہے مگر بطور ہیروئین یا مرکزی کردار کے ان کی شہرت میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔ والدین تو ماریہ کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر وہ اداکاری کے میدان میں چلی آئیں اور نوے کی دہائی میں لاہور سینٹر کے ایک لانگ پلے ‘سارہ اور عمارہ’ کے ذریعے ڈیبیو کیا۔تاہم انہیں شہرت بانو قدسیہ کے لکھے ڈرامے ‘کلّو’ سے ملی جس کے بعد لگاتار کئی یادگار ڈراموں میں آکر اپنی پوزیشن مضبوط کی جن میں مورت، کبھی کبھی، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیند، بلندیوں پر بسیرا، کالی آنکھیں، آشیانہ، عورت کا گھر کونسا، دھڑکن اور احساس سمیت دیگر قابل ذکر ہیں، جبکہ ‘رام چند پاکستانی’ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم میں بھی وہ کام کرچکی ہیں۔