حیدرآباد۔“ دونوں تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں 2000 روپئے کی نئی نوٹوں کی بڑے پیمانے پر بلیک مارکیٹنگ ہورہی ہے۔ انٹلی جنس کی رپورٹ کے بعد حیدرآباد کے 24اور وجئے واڑہ ، گنٹور، کرنول کے 13 جملہ 37 بینک کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے۔ بینک عہدیداروں کی جانب سے 25تا40 فیصد کمیشن قبول کرتے ہوئے بڑے بابوؤں کو بھاری مقدار میں نئی کرنسی جاری کرنے کی شکایتیں وصول ہورہی ہیں،
غریب عوام جائیں تو کہاں جائیں اور کس کو اپنی فریاد سنائیں۔ 500اور 1000 روپیوں کے نوٹ کی اچانک منسوخی کے بعد سارے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے۔ روز مرہ کی زندگی کے گذر بسر کیلئے لاکھوں لوگ اے ٹی ایم اور بینکوں کے سامنے 2ہزار، 4 ہزار اور 10ہزار روپئے حاصل کرتے ہوئے گھنٹوں بھوکے پیاسے قطاروں میں ٹھہر رہے ہیں تاہم دولتمند افراد اپنے اثر و رسوخ اور بینک کے اعلیٰ عہدیداروں سے تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر قطار میں کھڑے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑہا روپئے حاصل کرنے کی ریزرو بینک آف انڈیا نے ابتدائی تحقیقات میں شناخت کی ہے۔ 10دن قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے 500اور 1000 روپئے کی بڑی نوٹوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا دوسرے دن بینکوں کو تعطیل دی گئی ، تیسرے دن سے اے ٹی ایم سے 2000 روپئے کے نوٹوں کی تبدیلی کے لئے 4000 روپئے اور بینک کھاتوں سے 10 ہزار روپئے کے نوٹ نکالنے کی حد مقرر کی گئی تاہم تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے تمام بڑے شہروں میں پہلے دن 40 فیصد 13 نومبر تک 25تا30 فیصد کمیشن وصول کرتے ہوئے لاکھوں، کروڑوں روپئے جاری کرنے کی شکایتیں وصول ہوئیں۔