کارسیوکوں نے وہ کر دکھایا جس کے دعوے وہ کیا کرتے تھے
چھ دسمبر انیس سو بانوے کا خیال آتے ہی بے شمار واقعات اوردلخراش نشانات ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں لیکن ان سب پر حاوی یہ مایوسی کہ بابری مسجد کو مسمار، اور اسلامی اصطلاح میں مسجد شہید کرنے والوں کو دس سال گزرنے کے بعد بھی پکڑا نہیں جا سکا۔
چھ دسمبر انیس سو بانوے کو جب میں لکھنؤ سے ایودھیا کی جانب سفر کر رہا تھا تو میرے دماغ میں مختلف خیالات اور سوالات تھے۔ کیا کار سیوکوں کا جم غفیر بابری مسجد کو ڈھانے کی کوشش کرے گا؟ اگر اسے تباہ نہ کیا تو کم از کم عمارت پر چڑھ کر تیس اکتوبر کی تاریخ کو دہرا کر بھگوا پرچم (زرد جھنڈا جسے ہندو مت کی علامت سمجھا جاتا ہے) گنبدوں پر نصب کر کے اپنی وقتی فتح کا اعلان کرنے سے نہیں چوکیں گے!
لکھنؤ سے فیض آباد اور فیض آباد سے ایودھیا تک سفر کا بیشتر حصہ اپنے اندر خاموشی اور اضطراب سمیٹے ہوئے تھا۔ایک انجانا خوف، ایک نامعلوم خدشہ، اور اس دوران کہیں سے کارسیوکوں کی ٹولیاں اور ان کے ہاؤ بھاؤ۔ ہاتھوں میں ترشول، چہروں پر تناؤ کی لکیریں اور لبوں پر جے شری رام کے نعرے، یہ سب کچھ تھوڑی دیر کے لئے ہم صحافیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔لکھنؤ سے فیض آباد شہر کی مسافت ایک سو بیس کلو میٹر ہے اور وہاں سے ایودھیا تک کا آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ کیسے کٹا؟ ہماری گاڑی کا غیر مسلم ڈرائیور ہم سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ وہ گاڑی پر چسپاں جے شری رام کے سٹکر کو بار بار دیکھتا اور اسے اپنے ہاتھ سے چپکانے کی کوشش کرتا حالانکہ سٹکر پوری طرح چپکاہوا تھا۔ وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار تھا۔
گاڑی فیض آباد میں داخل ہو چکی تھی۔ جا بجا چائے اور پانی کی سبیلیں لگی تھیں اور بعض جگہ لڈو بھی تقسیم کیے جا رہے تھے۔ کہیں کہیں ماتھے پر تلک لگانے اور جے شری رام کا نعرہ بلند کرنے کی فرمائش کی جاتی۔
ایودھیا کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ یہاں بھارتیا جنتا پارٹی کے چھوٹے بڑے رہنما اور آر ایس ایس کے مفکرین خیمہ زن تھے۔ ایک بڑے میدان میں جمع کارسیوک مقررین کی شعلہ بیانی سے محظوظ ہو رہے تھے اور آج ان کے تیور پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور غیر متوقع دکھائی دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں بی جے پی اور سَنگھ خاندان کے بڑے رہنما ان کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔
مقررین کی شعلہ بیانی کے باعث پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی، اشوک سنگھل کے علاوہ دیگر رہنما بھی پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔
سادھوی رتمبھرا مسلمانوں اور بابری مسجد ہندو رہنما اشوک سنگھل کیخلاف جوشیلے انداز میں اظہار رائے کر رہی تھیں جو سوائے دل آزاری کے کچھ نہ تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے اچانک طبل جنگ بجا اور اشوک سنگھل پنے حواریوں کے ساتھ بابری مسجد کی عمارت میں داخل ہوئے۔
مسجد کے دالان پر پڑے پردے کو کھینچ لیا گیا اور دور سے ایسا دکھائی دیتا تھا کہ پردے کے پیچھے چہل قدمی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کچھ دیر بعد متنازعہ بابری مسجد میں رام للا کی آخری بار آرتی اور پوجا کا کام شروع کر دیا گیا۔
لیکن باہر موجود کارسیوک کہاں انتظار کرنے والے تھے۔ انہوں نے آناً فاناً مسجد کی حفاظت کی غرض سے بنائے گئے جنگلے کو پھلانگ کر مسجد پر دھاوا بول دیا۔
پہلے سے تیار کار سیوکوں کے ہاتھوں میں پھاؤڑے، گیتی، کدال اور موٹے موٹے رسے تھے۔ ان پر جنون سوار تھا اور وہ دیوانہ وار عمارت پر چڑھ دوڑنے کی کوشش میں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے رام چبوترے کی دیواریں اور مسجد کی چہار دیواری کو گرا ڈالا۔چند لمحوں میں کار سیوکوں کے گروہ کارسیوک ہاتھوں میں بابری مسجد کے ملبے سے نکلی اینٹیں اٹھائے محوِ رقص تھے اور خوشیاں منا رہے تھے
مسجد کی عمارت ہر ہلہ بول چکے تھے اور ان کی جنونی کیفیت نکتہِ عروج پر تھی۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان کار سیوکوں کو پہلے سے تربیت دی گئی تھی۔ ان کی آنکھوں میں خون اترا دکھائی دیتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اب پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور ان کے دلوں میں برسہا برس کا خاموش جوالہ مکھی اب پھٹ کر ہی دم لیگا۔شام ساڑھے پانچ بجے تک وہ چار سو باسٹھ برس قدیم عبادتگاہ کو مسمار کر چکے تھے۔
پولیس، حفاظتی عملہ اور سرکاری لاؤ لشکر پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ ملکی و غیر ملکی صحافی کار سیوکوں کا نشانہ بن رہے تھے، خواتین صحافی اور غیر ملکی نمائندے اپنی عزت اور جان بچانے کے لیے تنگ گلیوں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔
کارسیوک ہاتھوں میں بابری مسجد کے ملبے سے نکلی اینٹیں اٹھائے محوِ رقص تھے اور خوشیاں منا رہے تھے۔ وہ وشو ہندو پریشد اور سنگھ کے لیڈروں کی ہدایات پر کان نہیں دھر رہے تھے۔ قیامت کا سا منظر برپا تھا۔کارسیوکوں نے وہ کر دکھایا تھا جس کے دعوے وہ کرتے رہتے تھے۔
ایودھیا کار زار بن چکا تھا۔ یہاں موجود بی بی سی کے مارک ٹلی اور ٹائم میگزین کے صحافی ادھر۔ادھر بھاگ رہے تھے اسی دوران ایودھیا کیدیگر تئیس مساجد اور متعدد مسلمانوں کے گھروں کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔ چھوٹی مسلم بستیاں آگ اور دھویں میں غلطاں تھیں اور ہر طرف افراتفری پھیلی تھی۔ لوگ بھاگ رہے تھے، زخمی کراہ رہے تھے اور تباہی و بربادی عروج پر تھی۔ پورے ایودھیا میں انتشار برپا تھا۔ شور اور چیخ و پکار میں صرف جے شری رام کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔میں بھی کبھی اس عمارت سے نیچے آتا جہاں اخبار نویسوں کے لیے انتظام کیا گیا تھا اور وہاں پِٹتے اور مار کھاتے صحافیوں کی حالت زار دیکھ کر ادھر ادھر بھاگتا۔ بجرنگ دل اور کار سیوکوں کی یہ کوشش تھی کہ فوٹو گرافر تصویریں نہ اتار پائیں یعنی گواہی اور ہر قسم کے ریکارڈ کو پوری طرح تلف کرنے کا پروگرام تھا۔
کارسیوک مسجد مسمار کر چکے تھے اور اب ان کی نگاہیں رام مندر کی تعمیر پر لگی تھیں۔انہوں نے ریاست کے نیم فوجی دستیوں کی مدد سے ایک عارضی مندر بنا لیا تھا۔ہمارے ڈرائیور نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا رام،رام یہ ان لوگوں نے کیا کیا؟
مرکزی حفاظتی دستوں کے لیے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ ہم سب پولیس کی نا اہلی پر ششدر تھے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت اور اس کے قانون کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہے تھے۔
ایودھیا سے نکلتے نکلتے ہمیں پورے ملک سے فسادات اور تناؤ کی خبریں موصول ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ ہمارا ڈرائیور کار سیوکوں کے جنون پر برہم تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ ’رام رام! ان لوگوں نے کیا کیا؟‘
ایودھیا سے فیض آباد کی آٹھ کلو میٹر کی مسافت کو عبور کرنا خاصا دشوار تھا۔ کار سیوکوں نے راستے اس لیے مسدود کر دیے تھے کہ محافظ دستوں نے بابری مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں محافظ دستوں کے ٹرکوں کو آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھیں۔ جگہ جگہ ٹائر جلا کر شہریوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
ہم ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے فیض آباد کیسے پہنچے؟ یہ تو ہمارا ڈرائیور دیویدی ہی بتا سکتا ہے۔ وہ آگ، اینٹ، پتھر اور دیگر رکاوٹوں کو جے رام کے نعرے لگاتا عبور کر رہا تھا اور ہم سب اپنے سانس تھامے کسی غیر متوقع حادثے کا انتظار کر رہے تھے۔
لکھنؤ پہنچ کر میں نے اپنے اخبار کو ایک طویل رپورٹ بھیجی۔ ہماری کھینچی ہوئی تصویریں کار سیوک چھین چکے تھے۔ لیکن چند دیگر فوٹو گرافروں نے ہماری مدد کی اور ہمیں تصویریں مہیا کیں۔
لکھنؤ میں دبیز تاریکی، کہرے اور ٹھنڈک کے ماحول کے باوجود فضا گرم تھی اور لوگ گھروں میں سرکاری ٹی وی دور درشن پر حالات سے متعلق خبریں جاننے کا انتظار کر رہے تھے۔
شہر میں کرفیو نافذ کیا جا چکا تھا، امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب صحافیوں کی بڑی تعداد جس میں میرے علاوہ ہندی کے مشہور صحافی جے پرکاش شاہی بھی شامل تھے، بابری مسجد کی مسماری کے مناظر دیکھ کر آنسو بہا رہی تھی۔
شاہی اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن لکھنؤ پہنچ کر انہوں نے دیگر سیکولر عناصر کی مدد سے جعلی رام بھگتوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔
سید حسین افسر