امریکی ریاست اوریگن کے شہر پورٹ لینڈ میں پولیس کے تشدد اور نسل پرستی کے خلاف مسلسل احتجاج کے 100ویں روز بھی سیکڑوں افراد نے ریلیاں نکالیں اور مارچ کیا۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق پورٹ لینڈ میں احتجاج پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا اور تاحال جاری ہے اور ختم ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مارچ کے دوران سڑکوں میں بوتلیں پھینکی گئیں اور پولیس کے ساتھ تصادم ہوا، سوشل میڈیا میں سامنے آنے والی ویڈیوز میں دکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین کو ہٹانے کے لیے آنسوگیس اور دیگر سامان جمع کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ بغیر اجازت کے ہونے والے احتجاج کوروکا جارہا ہے، گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں لیکن تعداد واضح نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک شہری زخمی ہوا ہے، جن کے جوتوں کومظاہرین کی جانب سے لگائے گئے آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا جبکہ پولیس افسران پر بھی فائربم اچھالے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہرین کی بڑی تعداد شہر کے مرکزی پارک میں جمع ہوئی تھی جہاں تحفظ کے لیے لکڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ رواں برس مئی میں مینی پولس میں جارج فلائیڈ کو پولیس کی حراست میں تشدد کے باعث ہلاکت کے بعد پورٹ لینڈ میں احتجاج شروع ہوا تھا۔
پورٹ لینڈ میں احتجاج کے 100 ویں روز مظاہرین نے سڑکوں پراحتجاج جاری رکھنے کاعزم ظاہر کیا اور کہا کہ احتجاج جاری رہے گا۔
سیاہ فام نوجوان شہری کا کہنا تھا کہ میں 100 میں سے 70 دنوں تک احتجاج میں شریک رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ مقامی پولیس کے بجٹ میں واضح کمی آئے اوران پیسوں کو کمیونٹی کی دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج مزید کچھ عرصے تک جاری رہے گا اور میرے خیال میں انتخاب تک ہوگا اور اس وقت تک ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی پورٹ لینڈ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان تصادم کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں کا کارواں شہر کے مضافات میں ایک مال کے پاس جمع ہوا اور پورٹ لینڈ کے مرکز کی جانب رواں ہوا لیکن جب مظاہرین نے مختلف سڑکوں اور پلوں میں کھڑے ہو کر انہیں روکنے کی کوشش کی تو تصادم ہوا۔
واقعے کی ویڈیو میں دونوں فریقین کے درمیان تصادم اور ٹرمپ کے حامیوں کو پیلٹس فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جبکہ مظاہرین ان کی طرف مختلف اشیا اچھال رہے تھے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر کو پولیس کے ہاتھوں رواں برس مئی میں مینیوپولس میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت سمیت دیگر واقعات پر خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر تنقید کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں نسلی امتیاز کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوئی۔
امریکا میں احتجاج کا نیا سلسلہ گزشتہ ہفتے پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہری جیکب بلیک کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے پر شروع ہوا تھا۔
بعد ازاں 26 اگست کو ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہروں میں 2 ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوگیا تھا۔
کاؤنٹی شیرف نے بتایا تھا کہ سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے تیسرے روز بھی پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوچکی ہے۔
ریاست منی سوٹا میں 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں امریکا کی متعدد ریاستوں میں پھیل جانے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب پوپ فرانسس نے امریکا میں بدامنی پر اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ’نسل پرستی سے اپنی نظریں نہیں چرا سکتا‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’لیکن تشدد صرف اپنی تباہی اور شکست کا باعث بنے گا‘۔