دہرادون: اتراکھنڈ میں 136 مدارس کو سیل کرنے کے بعد وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نے پیر اداروں کی فنڈنگ کی جانچ کرنے کا حکم دے دیا۔ ریاست میں مارچ سے اب تک ایسے 136 مدارس کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے جو محکمہ تعلیم یا مدرسہ بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں تھے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق ریاست میں تقریباً 450 رجسٹرڈ مدارس ہیں جب کہ 500 مدرسے ان دونوں محکموں کی منظوری کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ادارے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ادھم سنگھ نگر میں 64 مدارس کو سیل کر دیے گئے جب کہ دہرادون میں، 44، ہریدوار میں 26 اور دو مدارس پوڑی گڑھوال میں سیل کیے گئے۔
دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ “غیر قانونی مدارس، مزارات اور تجاوزات کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ اتر پردیش کی سرحد سے متصل قصبوں میں غیر رجسٹرڈ مدارس کی اطلاع ملی ہے، اور ایسے غیر قانونی ادارے سیکورٹی کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہیں۔”
اس سے قبل جنوری میں اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے مدارس کی تصدیقی مہم شروع گئی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ضلع انتظامیہ مدارس کے مالی ذرائع سمیت مختلف پہلوؤں کا پتہ لگانے کے لیے سروے کر رہی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے اتراکھنڈ حکومت کی اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جمعیت کا موقف ہے کہ ان اداروں کو سیل کرنے سے پہلے منتظمین کو نوٹس نہیں دیا گیا۔ جمعیت کے مطابق ”یہ کارروائی رمضان کے دوران ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اپنے گھروں دور ہاسٹل میں مقیم بچے پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا بچے دوسرے اسکولوں منتقل ہوسکیں گے اور دوسرے نصاب میں ضم ہو سکیں گے۔”
مدرسہ بورڈ کے چیئرپرسن مفتی شمعوم قاسمی نے کہا کہ سیل کیے گئے مدارس کے بچوں کو قریبی اسکولوں اور مدارس میں منتقل کیا جائے گا اور انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ بچوں کی منتقلی کا عمل شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق حاصل ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔”
واضح رہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے بڑے مدارس کے تجویز کردہ نصاب کی پیروی کرتے ہیں، جب کہ تسلیم شدہ مدارس مدارس کی تعلیم کے لیے ریاستی بورڈز کے تحت آتے ہیں۔