طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کے سابق فوجی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کے 200 سے زائد ارکان مارے جا چکے ہیں۔ڈان اخبار میں شائع غیرملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے رپورٹ کے مطابق افغانستان کے اقوام متحدہ میں مشن نے بتایا کہ پرانے دشمنوں کے لیے ’عام معافی‘ کے اعلان کے باوجود یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 2021 کے وسط میں افغانستان پر قبضے سے لے کر جون تک طالبان سے منسلک کم از کم 218 ماورائے عدالت قتل ریکارڈ کیے تھے۔
مزید بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں افراد کو ڈی فیکٹو سیکیورٹی فورسز نے قتل کرنے سے قبل مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا تھا۔
طالبان کی زیر قیادت وزارت خارجہ امور نے یوناما کے ردعمل میں بتایا کہ انہیں حکم کی تعمیل نہ کرنے کے کسی بھی معاملے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اور جو بھی معاملہ ہوا اس کی تحقیقات کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ یہ ہلاکتیں عوام کے اعتماد کو دغا دینے کے مترادف ہیں، کیونکہ متاثرین کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
یو این اے ایم اے نے کہا کہ اس نے ریکارڈ کی گئی ہلاکتوں میں سے تقریباً نصف طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کے 4 ماہ میں ہوئیں، اور 2022 میں 70 ریکارڈ کی گئیں، امریکی حمایت یافتہ غیر ملکی افواج اگست 2021 میں افغانستان سے نکل گئی تھیں۔
یوناما نے مجموعی طور پر سابق سرکاری ملازمین اور فوج کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 800 واقعات ریکارڈ کیے۔