‘گھر واپسی’ ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ایک اہم پروگرام ہے اور اس کے سربراہ موہن بھگوت کئی مرتبہ اس کا دفاع کر چکے ہیں۔
فیض آباد شہر اجودھیا سے ملا ہوا ہے جہاں واقع تاریخی بابری مسجد کو سنہ 1992 میں ہندو کارسیوکوں یا رضاکاروں نے مسمار کردیا تھا۔ یہ تقریب آریہ سماج کے ایک مندر میں کی گئی۔
مذہب تبدیل کرنے والوں کا کہنا ہےکہ انھیں نہ کوئی لالچ دیا گیا اور نہ ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی ہوئی۔
ان کے مطابق ان کے گھر والے تقریباً 25 سال پہلے مسلمان ہوگئے تھے اور اب وہ اپنی مرضی سے دوبارہ ہندو مذہب میں داخل ہوگئے ہیں۔
مذہب تبدیل کرنے والوں میں سے ایک لال محمد ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘ہمارے والد ہندو مذہب پر عمل کرتےتھے، بیچ میں کسی وجہ سے بہکاوے میں آ کر وہ مسلمان ہوگئے اور ہمارا نام لال محمد رکھ دیا، اب ہم اسی مذہب میں دوبارہ شامل ہوگئے ہیں جسے ہمارے والد پہلے مانتے تھے اور ہم نے اپنا نام لال من رکھ لیا ہے۔’
آر ایس ایس اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کا موقف ہے کہ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تلوار کے زور پر مسلمان بنایا گیا تھا اس لیے انھیں دوبارہ ہندو بنانے کی کوششیں غلط نہیں ہیں۔
آر ایس ایس کے مقامی پرچارک کیلاش چندر سری واستو نے کہا کہ اسلام چھوڑنے والے سبھی افراد نے اپنی مرضی سے ہندو مذہب اختیار کیا ہے۔ ‘ان افراد کے گھر والوں نے کسی وجہ سے اسلام قبول کر لیا تھا اب یہ گھر واپس آ رہے ہیں اس لیے گھر واپسی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔’
اس سے پہلے آگرہ میں بھی کچھ مسلمانوں نے ہندو مذہب اختیار کیا تھا لیکن اس وقت کافی تنازع ہوا تھا اور علاقے میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔
اب آگرہ کے قریب واقع علی گڑھ میں تقریباً دو ہزار دلتوں نے دھمکی دی ہے کہ اونچی ذات کے ہندوؤں نے ان کے ساتھ زیادتیاں بند نہیں کیں تو وہ اسلام قبول کرلیں گے۔
اتر پردیش میں دلتوں اور اونچی ذاتوں کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے جس نے چند روز قبل تشدد کی شکل اختیار کر لی تھی۔
اس سے پہلے گجرات میں بھی گائے کے تحفظ کے نام پر نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا حالانکہ یہ لوگ صرف مردہ جانوروں کی کھال اتار رہے تھے۔ ان کی پٹائی کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔
اسی پس منظر میں دلتوں نے اتوار کو دلی میں ایک جلسہ کیا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ جسلے میں کہا گیا کہ اونچی ذاتوں کی زیادتیاں اب برداشت نہیں کی جائیں گی۔