اسلامی جمہوریہ ایران کی غیر معمولی انٹیلیجنس کامیابی اور صہیونی حکومت کے جاسوسی اداروں پر اس کی فیصلہ کن برتری نے نہ صرف خطے اور بین الاقوامی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، بلکہ صہیونی حکومت کی پوزیشن کو بھی شدید متزلزل کردیا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ دنوں ایران نے صہیونی جوہری تنصیبات اور حساس فوجی مراکز کے بارے میں اہم معلومات پر مشتمل بھاری ذخیرہ حاصل کرنے کا انکشاف کیا۔ لبنانی ٹی وی چینل المیادین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں اس انٹیلیجنس فتح کو ایران کی اسٹریٹیجک کامیابی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پیش رفت صہیونی حکومت کے خلاف ایک اسٹریٹیجک زلزلے کے مترادف ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران نے صہیونی حکومت کے حساس ترین انٹیلیجنس نظاموں تک رسائی حاصل کرکے جو اطلاعات اور اسناد حاصل کی ہیں، ان کی تعداد اور حساسیت حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے۔ ایران کو حاصل ہونے والی انٹیلیجنس معلومات میں ہزاروں ایسے اہم منصوبے شامل ہیں جو قابض صہیونی حکومت کی سرگرمیوں اور ان کے جوہری تنصیبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دستاویزات کو مکمل سکیورٹی اور حفاظت کے ساتھ ایران منتقل کردیا گیا ہے۔
المیادین کے مطابق ان معلومات اور اسناد کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہوچکا ہے، تاہم ان کی وسعت اور گہرائی کے سبب ان کا مکمل تجزیہ وقت طلب مرحلہ ہوگا۔
حساس وقت میں ایرانی انٹیلیجنس آپریشن کا اعلان؛ پسِ منظر اور بین الاقوامی اثرات
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے صہیونی حکومت کے خلاف غیر معمولی انٹیلیجنس آپریشن کا اعلان ایک نہایت حساس اور اہم موقع پر کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام سے متعلق پانچویں دور کی بالواسطہ بات چیت ختم ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس دوران امریکہ نے عمان کے ذریعے ایک تحریری تجویز تہران کو بھیجی، جس میں ایران سے یورینیم کی افزودگی روکنے اور ایران کے باہر ایک علاقائی افزودگی گروپ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایران کی اس بے نظیر انٹیلیجنس کامیابی کا اعلان ایسے وقت میں بھی سامنے آیا جب عنقریب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق، فرانس، جرمنی اور برطانیہ اس اجلاس کے دوران ایران کے خلاف ایک ممکنہ قرارداد لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ ممکنہ قرارداد، ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی کی اُس رپورٹ پر مبنی ہوگی جس میں ایران پر مکمل تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایران نے گروسی کی رپورٹ کو جانبدار اور سیاسی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے اور گروسی پر صہیونی ذرائع پر انحصار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایران نے یورپی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ گروسی کے اس معاندانہ رویے کے خلاف ایران کے ممکنہ جوابی اقدامات کے لیے تیار رہیں۔
علاوہ ازین ایران کے اس انٹیلیجنس آپریشن کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ ان دعووں میں کہا گیا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ بالواسطہ جوہری مذاکرات ناکام ہو گئے تو وہ حملے کرکے تہران پر دباؤ ڈالیں گے تاکہ امریکہ کی شرائط خاص طور پر افزودگی کے خاتمے سے متعلق تجویز قبول کرے۔
اسی اثنا میں، ایران روسی صدر ولادیمیر پوتین کے مجوزہ دورے کا بھی منتظر ہے، جو عنقریب تہران آئیں گے تاکہ آٹھ ارب ڈالر کی مشترکہ اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے جاسکیں۔
ایران کی بڑی انٹیلیجنس کارروائی کے نتائج
اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے صہیونی حکومت کے خلاف حالیہ انٹیلیجنس کارروائی میں حاصل کی گئی دستاویزات کی تفصیلات پوری طرح ظاہر نہیں کی ہیں، تاہم اس آپریشن کو ایک اسٹریٹیجک کامیابی قرار دیا گیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ ان اسناد کا تعلق صہیونی حکومت کے حساس سیکیورٹی منصوبوں اور جوہری تنصیبات سے ہے۔ اسی بنیاد پر اس خبر کے اعلان کا وقت خود ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران نے اس کارروائی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر کئی واضح اور اہم پیغامات ارسال کیے ہیں:
1. فوجی اور دفاعی ڈیٹرینس
ایران یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے پاس اسرائیل کی جوہری تنصیبات سے متعلق نہ صرف دستاویزات موجود ہیں بلکہ ان پر ممکنہ حملے کے لیے درکار انٹیلیجنس معلومات بھی دستیاب ہیں۔ اگر امریکہ اور اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی اپنی دھمکیوں پر عمل درآمد کریں تو ایران ان اطلاعات کو جوابی کاروائی میں استعمال کرسکتا ہے۔ لہٰذا تہران نے واشنگٹن اور تل ابیب کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکیوں سے باز آجائیں۔
2. سیاسی ڈیٹرینس
ایران نے امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات کا جواب دینے کے لیے ایک وسیع سفارتی اور سیاسی میدان خود کے لیے پیدا کر لیا ہے۔ اس موقف نے ایران کو مضبوط پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ امریکہ کو ایسے عملی حل تلاش کرنے پر مجبور کرسکتا ہے جو قابل قبول اور قابل عمل ہوں، بجائے اس کے کہ امریکہ اپنی مرضی کی شرائط اور تجاویز تہران پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔
3. قانونی ڈیٹرینس
ایران کے مطابق، اس کے پاس اسرائیلی جوہری پروگرام اور اس کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق نہایت مفصل اور درست معلومات موجود ہیں۔ جبکہ اسرائیل طویل عرصے سے ان تنصیبات سے متعلق ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں ہے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ان تک رسائی نہیں دیتا۔ اب یہ مسئلہ ایجنسی اور اس کے ڈائریکٹر رافائل گروسی سمیت بورڈ آف گورنرز کے رکن ممالک کے لیے ایک قانونی چیلنج بن چکا ہے۔ یہ صورت حال انہیں مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایران کے خلاف سیاسی مہم جوئی کو ترک کر دیں۔
4۔ خطے کی سکیورٹی پر اثر اور دباؤ میں اضافہ
اسرائیلی جوہری پروگرام کی تفصیلات منظرِ عام پر لانے کے بعد اب یہ محض اسرائیل کا داخلی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ یہ علاقائی سلامتی کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ انکشافات خطے کے دیگر ممالک کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں اور اسرائیلی حکومت کے خلاف ایک نیا سفارتی و سیاسی دباؤ قائم ہو۔
5۔ ٹیکنالوجیکل سطح پر سبقت اور انٹیلیجنس برتری
ایران کی یہ انٹیلیجنس کارروائی اپنی وسعت، نفوذ اور نتائج کے اعتبار سے لبنان کے خلاف اسرائیلی پیجر حملے سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ کئی پہلوؤں سے اس سے کہیں زیادہ مؤثر اور خطرناک سمجھی جارہی ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر انٹیلیجنس کے میدان میں خود کو ایک مؤثر اور برتر قوت کے طور پر منوا لیا ہے خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب اسرائیل کو کئی عالمی طاقتوں کی انٹیلیجنس سپورٹ بھی حاصل ہے۔
6۔ صہیونی حکومت کے اندرونی استحکام پر کاری وار
یہ انٹیلیجنس آپریشن یقینی طور پر صہیونی حکومت کے اندرونی ڈھانچے پر منفی اور تباہ کن اثر ڈالے گا، خاص طور پر وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی متزلزل کابینہ اس سے شدید متاثر ہوگی۔ یہ کارروائی صہیونی فوج، انٹیلیجنس ایجنسیوں اور خود معاشرے کے اندر عدم اعتماد، اضطراب اور داخلی تقسیم کو گہرا کرسکتی ہے جس سے اسرائیل مزید کمزور اور اس کے سکیورٹی نظام پر شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوگا۔
المیادین اپنی رپورٹ کے اختتام پر واضح کیا ہے کہ ایران کی یہ انٹیلیجنس کامیابی حجم، معیار اور اثرات کے اعتبار سے غیر معمولی ہے۔ یہ کاروائی اسلامی جمہوریہ ایران کے انٹیلیجنس اداروں کی بڑی فتح شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ کارروائی اسرائیلی انٹیلیجنس اداروں، خصوصاً موساد، کی ایک تاریخی ناکامی ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو کئی دہائیوں سے اسرائیل کے دفاع اور ساکھ کو محفوظ رکھنے کے لیے آہنی دیوار کے طور پر کام کررہا تھا مگر ایرانی انٹیلیجنس کے ہاتھوں اب وہ شدید زک اٹھاچکا ہے۔