پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور آرگنائزیشنز کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 کیسز رپورٹ ہوئے، جو سالانہ بنیادوں پر 60 فیصد اضافہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے تیار کردہ پاکستان پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صحافت کے لیے سب سے زیادہ خطرے والی جگہ اسلام آباد ہے، جہاں پر 56 یا 40 فیصد خلاف ورزیاں ہوئیں۔
پنجاب دوسری بدترین جگہ ہے جہاں 35 (25 فیصد) خلاف ورزیوں کے کیسز جبکہ سندھ میں 32 (23 فیصد) کیسز رپورٹ ہوئے۔
3 مئی کو منائے جانے والے ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ سے قبل جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ملک کا میڈیا ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے، مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فیصد بڑھ کر 140 ہو گئی جو 22-2021 میں 86 تھی۔
رپورٹ میں زیر جائزہ مدت کے دوران پاکستان میں کم از کم 5 صحافیوں کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے بتایا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیرجانبدار صحافیوں پر حملے سے اہم معلومات تک رسائی رکتی ہے جو کہ خاص طور پر جاری سیاسی اور معاشی بحران کے دوران تباہ کن ہے جب عوام کو قابل بھروسہ خبر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اہم مسائل کو سمجھ سکیں۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والا ایشیا کا پہلا ملک بنا لیکن ڈیڑھ سال بعد وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین نے کسی ایک صحافی کی بھی مدد نہیں کی جس کے نتیجے میں ان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ فریڈم نیٹ ورک نے وزیراعظم شہباز شریف پر زور دیا ہے کہ وہ 2 نومبر 2022 کو اسلام آباد میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کو فوری طور پر پورا کریں، صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی دن کے موقع پر پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے تحت درکار حفاظتی کمیشن کو مطلع کرنا تاکہ پارلیمنٹ کی طرف سے دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور ہونے والا قانون صحافیوں کی مدد کرنا شروع کر سکے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر بھی زور دیا کہ وہ سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 کے تحت اپنے نوٹیفائیڈ صوبائی سیفٹی کمیشن کو وسائل سے آراستہ کریں تاکہ یہ صحافیوں کی مدد کر سکے اور انہیں صوبے میں ان کے خلاف ہونے والے جرائم سے استثنیٰ کا مقابلہ کرنے کے لیے با اختیار بنایا جا سکے۔
پاکستان میں گزشتہ 11 مہینوں میں صحافیوں کے خلاف 140 حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مہینے میں 13 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں یا پھر آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں تقریباً ہر دوسرے روز ہوتی ہیں۔