حیدرآباد: تلنگانہ کے وزیراعلی کے چندرشیکھرراو نے حال ہی میں ریاست کی 7 تاریخی مساجد کو آباد کروایا ہے۔ ان کی ہدایت پر ریاستی وقف بورڈ نے شہرحیدرآباد اور اس کے نواحی علاقوں میں 6 قطب شاہی مساجد کو آباد کروایا جبکہ ضلع میدک میں ایک قدیم اور تاریخ مساجد کی مرمت کروا کر اسے دوبارہ آباد کروایا گیا ہے۔
ان مساجد میں قطب شاہی مسجد، خانہ پیٹ (ہائی ٹیک سٹی کے قریب)، قطب شاہی مسجد، قلعہ گولگنڈہ (قلعہ کے عقبی حصہ میں واقع مسجد)، قطب شاہی مسجد، آدی بٹلہ، ضلع رنگاریڈی، قطب شاہی مسجد، ابراہیم پٹنم، قطب شاہی مسجد، مالکان چیرو، گچی باؤلی، حیدرآباد، قطب شاہی مسجد، مہیشورم اور قدیم مسجد المعروف بوڑکی مسجد، ضلع میدک شامل ہے۔
تلنگانہ وقف بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا قدیم وتاریخی مساجد کو آباد کرنے سے پہلے ان کی مرمت کی گئی ہے۔ 2014 میں تلنگانہ کی تشکیل کے بعد تلنگانہ وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے حال ہی میں تلنگانہ اسمبلی میں یہ اعلان کیا ہے کہ وقف جائیداد یا املاک کے کسی اور محکمہ میں رجسٹریشن کروانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا ہے کہ تلنگانہ حکومت، وقف املاک اور جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔
وزیراعلی کے چندرشیکھرراو نے ایوان کو بتایا تھا کہ وقف جائیدادوں اور املاک کے استعمال سے حاصل ہونے والی آمدنی کو محکمہ اقلیتی بہبو د پر خرچ کرتے ہوئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی پسماندگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ٹی آرایس کے اقلیتی لیڈروں میں اس اہم کارنامہ پر مسرت پائی جاتی ہے، جن کا کہنا ہےکہ ایک طرف جہاں زعفرانی جماعت کی جانب سے بابری مسجد کے بعد اب ملک کی دیگر مساجد پر نظر ڈالی جارہی ہے، ایسے میں چندر شیکھرراو حکومت کی جانب سے مساجد کو آباد کرنے کا کارنامہ انجام دیا گیا ہے لائق ستائش ہے۔ کئی مسلم گروپس اور تنظیموں میں اس تعلق سے مسرت پائی جاتی ہے۔
تلنگانہ کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے چندر شیکھر راو حکومت کی جانب سے بڑے پیمانہ پر اقلیتی اقامتی تعلیمی اداروں کا جال بچھایا گیا ہے، جہاں قیام وطعام کے ساتھ اقلیتی طلبہ کے علاوہ ایس سی، ایس ٹی او بی سی طبقہ کے طلبہ کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وقف املاک کا پورے ملک میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف وزیراعلی کی یہ مساعی قابل قدر ہے، جنہوں نے اس مساعی کے ذریعہ سیکولر حکمرانی کی مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اوقافی املاک کے تحفظ کے لئے کافی سنجیدہ ہیں۔ اسے ان کی حکومت کا اقلیتوں کیلئے تحفہ اور ایک کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔