سعودی عرب میں آل سعود کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے علما، ائمہ مساجد و جمعہ کی گرفتاریوں اور برطرفی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
سعودی عرب کے اخبار عکاظ کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے آل سعود کی مخالفت کی پاداش میں الباختہ کے علاقے کے سات ائمہ مساجد و جمعہ کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جبری طور پر ملازمتوں سے نکالے جانے والے علماء پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کی پیروی نہیں کی اورعالم عرب کی معروف سیاسی و مذہبی جماعت اخوان المسلمین کے خلاف خطبہ دینے سے متعلق وزارت اسلامی امور کی ہدایات پر عمل درآمد میں سستی کا مظاہرہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ہفتوں کے دوران بھی سعودی عرب کے مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں علماء، ائمہ مساجد و جمعہ کو ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا تھا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کی پیروی نہیں کی اس لئے وہ اس منصب کے اہل نہیں رہے۔
سعودی وزارت اسلامی امور، دعوت اور ارشاد کے وزیر عبد اللطیف بن العزیز آل الشیخ نے العربیہ نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی تاہم انہوں نے دعوی کیا کہ وزارت اپنے ما تحت کسی ملازم یا امام کو ملازمت سے نکالنا نہیں چاہتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انہیں ان کے منصب کے تقاضوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں علماء، ائمہ مساجد و جمعہ کو ان کے عہدوں سے برطرف کرنے کے علاوہ سعودی عرب کے الشرقیہ صوبے کے شہر قطیف میں شیعہ مسلمانوں اور علماء کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور گزشتہ چند روز کے دوران آل سعود کے عناصر نے قطیف میں کئی رہائشی مکانوں کو مسمار کر کے 34 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں علماء بھی شامل ہیں۔
صوبہ الشرقیہ کے شیعہ علاقوں پر سعودی فوجی اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس علاقے پر سعودی سیکورٹی اہلکاروں کے حملوں میں اب تک دسیوں شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے، انسانی حقوق کے کارکنوں کی سرکوبی، آزادی اظہار رائے اور بلا جواز سزائے موت جیسے مسائل پر سعودی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔