الاقصی فاؤنڈیشن نے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصی کے لئے صہیونی ریاست کے خطرناک منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کل (منگل 8 اکتوبر 2013 کو) 90 اسرائیلی فوجی اہلکار صہہیونیوں کی خفیہ ایجنسیوں کے 30 افراد کے ہمراہ مسجد الاقصی کی حدود کی بےحرمتی کرتے ہوئے اس مسجد میں داخل ہوئے اور ان کے بعد 20 تشدد پسند صہیونی طلبہ بھی مسجد کے احاطے میں داخل ہوئے۔
صہیونی طلبہ صہیونی فوجیوں کی حفاظت میں مسجد کے مختلف حصوں میں گھومتے رہے حالانکہ قدس کے دینی مدارس کے سینکڑوں طلبہ اس مسجد کے اندر تعلیم حاصل کررہے تھے۔
صہیونیوں کے داخلے کے بعد مسلم طلبہ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
الاقصی فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات ہر روز دہرائے جارہے ہيں اور مسلمانوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ان توہین آمیز اقدامات کا مقصد قدس کو تقسیم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے چنانچہ مسلمانوں کو مناسبت رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے اور قدس کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اس مسجد میں ہمہ وقت حاضر ہونا چاہئے۔
اس فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ مسجد الاقصی میں داخلے کے صہیونی توہین آمیز اقدامات میں حالیہ ہفتوں کے دوران اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب صہیونی پارلیمان “کنست” کے داخلی کمیشن کا حالیہ اجلاس ہے جس میں صہیونیوں سے کہا گیا ہے کہ جمعرات کے دن مسجد الاقصی پر بڑا حملہ کرنے کے لئے تیاری کریں۔
مسجد الاقصی کی تقسیم کی سازش
ادھر قدس شہر کے دینی مبلغین بورڈ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمن عباد نے چند سال قبل (2010 میں) کہا تھا کہ صہیونی ریاست نے عالم اسلام کے 150 تاریخی و قدیم مقامات کو یہودی تاریخی ورثے کا حصہ بنایا ہے جو تاریخ پر صہیونیوں کی جارحیت ہے۔ انھوں نے خبردار کیا تھا کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے 20 ہزار گھروں کو بھی منہدم کرنا چاہتی ہے، جن میں سے بیشر گھر اب تک منہدم کئے جاچکے ہیں۔