اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک اور گزشتہ چند سال سے خواتین کو خودمختاری دینے میں پیش پیش سعودی عرب کے حوالے سے تازہ خبر سامنے آئی ہے کہ وہاں طلاق کا رجحان گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھ گیا۔
سعودی عرب میں کیے جانے والے تازہ سروے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ہر گھنٹے میں 7 جب کہ یومیہ 168 طلاقیں ہو رہی ہیں۔
اس سے قبل سال اگست 2019 میں کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا تھا کہ سعودی عرب میں ہر گھنٹے میں 5 طلاقیں ہو رہی ہیں۔
سعودی گزٹ کے مطابق اگست 2019 میں کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا تھا کہ ملک میں 84 فیصد طلاقیں شوہر اور بیوی کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
سروے میں یہ حیران کن انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ بے جوڑ شادیاں کرنے کی وجہ سے بھی سعودی عرب میں 54 فیصد طلاقیں ہوتی ہیں اور زیادہ تر نوجوان جوڑے ہی اس عمل میں پیش پیش ہیں۔
سروے میں بتایا گیا تھا کہ 81 فیصد طلاقیں شوہر یا بیوی کے اہل خانہ کی جانب سے جوڑے کی ذاتی زندگی میں مداخلت دینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
سروے میں شوہر اور بیوی کے درمیان مناسب پیار، بات چیت نہ ہونے اور ایک دوسرے کے جذبات کے احترام نہ کرنے کے سبب کو بھی طلاق کی ایک بڑی وجہ بتایا گیا تھا۔
تاہم اب تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب میں محض 6 ماہ کے اندر طلاق کی شرح میں مزید اضافہ ہوگیا اور اب وہاں ہر گھنٹے میں 7 طلاقیں ہونے لگی ہیں۔
سعودی عرب کے نشریاتی ادارے ’الاخبار‘ کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ملک میں یومیہ 168 طلاقیں ہو رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محض 6 ماہ کے دوران سعودی عرب میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگیا اور اب ہر گھنٹے 7 طلاقیں ہونے لگی ہیں۔
رپورٹ میں طلاق کی بڑھتی شرح کو معاشرے کے لیے مہلک کینسر قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس عمل سے سب سے زیادہ نقصان متاثرہ مرد و خواتین سمیت ان کے بچوں اور ملکی معیشت کو ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں چوں کہ حکومت شادی کے لیے قرض بھی فراہم کرتی ہے جو تقریبا 24 لاکھ روپے تک ہوتا ہے اور طلاق کی وجہ سے جوڑے لیا گیا قرض واپس نہیں کرپاتے۔
اسی طرح طلاق کی وجہ سے ملکی معیشت کا سالانہ 3 ارب ریال نقصان ہو رہا ہے۔
اس سروے سے قبل ایک اور سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سعودی عرب کی 96 فیصد خواتین اپنی کمائی سے شادی کے لیے رقم بچانے کا خیال نہیں رکھتیں۔
سعودی گزٹ میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حال ہی میں نوجوانوں میں کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ محض 28 فیصد سعودی عرب کے مرد و خواتین نوجوان اپنی کمائی سے شادی کے لیے پیشے بچانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اسی سروے میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی 96 نوجوان لڑکیاں، جو اچھی خاصی کمائی بھی کرتی ہیں، وہ اپنی کمائی سے شادی کے لیے پیسے بچانے پر یقین نہیں رکھتیں۔
سعودی عرب کی محض 4 فیصد نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو اپنی کمائی سے شادی کے لیے کچھ رقم بچانے کی خواہش مند تھیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں طلاق اور خواتین کی جانب سے شادی کو غیر اہم سمجھنے کے عمل میں گزشتہ 5 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے اور ان ہی 5 سال میں سعودی حکومت نے خواتین کو زیادہ خودمختاری بھی دی ہے۔
اگرچہ سعودی حکومت یا سروے کرنے والے اداروں نے خواتین کی خودمختاری کو طلاقوں کی بڑھتی شرح یا شادی کو غیر اہم سمجھنے سے نہیں جوڑا ہے تاہم سماجی ماہرین پریشان ہیں کہ جیسے ہی سعودی معاشرہ سیکولر ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی خاندانی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔