چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین میں کورونا وائرس کے پیش نظر امریکا کوئی خاص مدد کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کر رہا ہے جو خوف پیدا کر رہے اور جنہیں پھیلایا جارہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وزارت کے ترجمان ہوا چن ینگ نے کہا کہ امریکا وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنے سفارتی عملے کے جزوی انخلا کی تجویز دی اور چین سے آنے والوں پر پابندی لگائی۔
آن لائن نیوز بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ سب کرنے سے صرف خوف پیدا ہوگا اور پھیلے گا، جو بری مثال ہے’، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ چین کو امید ہے کہ ممالک ایسے فیصلے کریں گے اور ردعمل دیں گے جو مناسب، پرسکون اور سائنس پر مبنی ہوں گے’۔
واضح رہے کہ 28 جنوری کو امریکا نے وسطی چین کے شہر ووہان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے عمل کا آغاز کردیا تھا۔
یاد رہے کہ ووہان ہی وہ شہر ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا کہ مہلک کورونا وائرس یہی سے شروع ہوا تھا۔
بعد ازاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 30 جنوری کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے اسے عالمی ہنگامی صورتحال قرار دیا تھا جبکہ اسی روز امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ چین کے لیے اپنی ٹریول ایڈوائزی کو بڑھا دیا تھا۔
ترجمان ہوا چن ینگ کا کہنا تھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک، جن میں وبائی امراض کی روک تھام کی قوی صلاحیتیں اور سہولیات موجود ہیں، انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے برخلاف حد سے زیادہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی ہے’۔