ایران کے مقدس شہر قم کی مصلا نامی عیدگاہ میں نہایت با وقات انداز میں شہید قاسم سلیمانی کا چہلم منایا گیا جس میں شہدا سے عقیدت رکھنے والے مختلف ممالک کے ہزاروں افرد شریک ہوئے۔
اس موقع پر شہید قاسم سلیمانی کے اہل خانہ اور استقامتی محاذ کے بعض عالمی چہروں کے علاوہ سپاہ پاسداران کے بعض کمانڈر اور دیگر سول اور فوجی عہدے دار بھی موجود تھے۔
فوجی کیریئر
قاسم سلیمانی نے 1979 میں انقلابِ ایران کے بعد پاسدرانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ابتدائی طور پر وہ شمالی مغربی ایران میں تعینات رہے۔ اس دوران انہوں نے ایران کے شمالی علاقوں میں کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔
اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران، عراق جنگ کے دوران انہوں نے کم عمری میں 41 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے بہت جلد پاسدرانِ انقلاب میں اپنی جگہ بنائی اور عراق کی جانب سے قبضے میں لیے گئے ایران کے کئی علاقے بازیاب کرائے۔
وہ نومبر 2015 میں شام میں باغیوں کے خلاف کارروائی کے دوران زخمی بھی ہوئے جبکہ عراق میں مختلف فوجی کارروائیوں کا حصہ رہے۔ وہ صدام حسین مخالف عراقی شیعہ کردش ملیشیا اور بدر آرگنائزیشن کی حمایت بھی کرتے رہے۔
بعد ازاں سلیمانی نے 1990 کی دہائی میں افغانستان کی سرحد سے منسلک صوبہ کرمان میں پاسدرانِ انقلاب کی کمانڈ کی۔ وہ اس علاقے میں منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں بھی متحرک رہے۔
ایران میں 1999 میں ہونے والی طلبہ کی بغاوت کے دوران میجر جنرل قاسم سلیمانی ان فوجی افسران میں شامل تھے جنہوں نے ایران کے اس وقت کے صدر محمد خاتمی کو خط لکھا تھا کہ اس بغاوت کو کچلا جائے ورنہ پاسدرانِ انقلاب خاتمی حکومت کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔
قاسم سلیمانی کو 1998 میں پاسدران انقلاب کی قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔
افغان جنگ میں امریکہ سے تعاون
نائن الیون حملوں حملوں کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے دوران جنرل سلیمانی نے طالبان کے ٹھکانوں کی نشان دہی میں امریکہ کی مدد بھی کی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سینئر افسر ریان سی کروکر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کے بعد جنیوا میں ایرانی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں جنہیں قاسم سلیمانی نے بریف کیا تھا۔
ریان سی کروکر نے اعتراف کیا تھا کہ قاسم سلیمانی کی معلومات پر امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں۔
جنوری 2011 میں ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی اور انہیں ‘زندہ شہید’ قرار دیا۔
قاسم سلیمانی کو مشرقِ وسطیٰ میں فوجی حکمتِ عملی کے حوالے سے ایران کا سب سے طاقت ور رہنما سمجھا جاتا تھا۔ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں کے مختلف عرب ملکوں میں سرگرم شیعہ تنظیموں کی معاونت اور ان ملکوں میں ایرانی مفادات کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔
امریکہ نے اپریل 2019 میں ایران کی پاسدرانِ انقلاب کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ اس اقدام کے ردِ عمل میں جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات مکمل سرنڈر کے مترادف ہو گا۔
بشارالاسد کی حمایت
شام میں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران جنرل سلیمانی نے صدر بشار الاسد کی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انہوں نے بشارالاسد کی حکومت کو اس وقت سہارا دیا جب وہ شکست کے بالکل قریب تھی۔
اس کے بعد وہ عراق، لبنان اور شام میں مختلف آپریشنز کا حصہ رہے۔ قاسم سلیمانی عراق میں سابق صدر صدام حسین کی مخالف شیعہ ملیشیاؤں اور کردوں کی بھی فوجی معاونت کرتے رہے۔
قاسم سلیمانی کی قیادت میں قدس فورس اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف بھی متعدد کارروائیاں کیں اور انہیں ان دونوں ملکوں میں داعش اور القاعدہ کی شکست کا ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رُسوخ کے باعث وہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے لیے ناپسندیدہ شخصیت تھے۔
کم گو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے میجر جنرل قاسم سلیمانی ایران کے قدامت پسند حلقوں میں خاصے مقبول تھے۔ لیکن لبرل ایرانی حلقے اور ایرانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے ان سے خائف تھی اور اُنہیں ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں اور ایران کو سفارتی محاذ پر درپیش مسائل کا بڑا ذمہ دار سمجھتی تھی۔
قاسم سلیمانی کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2018 میں دی گئی دھمکی بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ سے کہا تھا کہ ہم آپ کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اتنا قریب کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ جنگ شروع صدر ٹرمپ کریں گے لیکن اس کا اختتام ہم کریں گے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے خلاف کشمیر میں احتجاج
قاسم سلیمانی کو خطے میں امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کے اثرو رُسوخ کا مقابلہ کرنے والی اہم طاقت سمجھا جاتا تھا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سعودی حکام نے بھی قاسم سلیمانی کو قتل کرانے کے امکانات کا جائزہ لیا تھا۔ لیکن سعودی حکام نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
البتہ اسرائیلی حکام سرِ عام میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔