لکھنؤ ۔ ( بیورو)ریاستی وزیر پارلیمانی امور وشہری ترقیات اور اقلیتی بہبود محمد اعظم خاں جن کو وزیراعلیٰ کے بعد نمبر دو کا وزیر سمجھا جاتا ہے اور ریاست کے سب سے سینئر وزیر ہیں ان کو بھی لال فیتہ شاہی نے ایسا پریشان کر دیا ہے کہ وہ اب میڈیا کا سہا را لے کر اپنی بات کہہ رہے ہیں ۔ ان کی بات بھی حکومت میں نہیں سنی جارہی ہے اعظم خاں نے سکریٹریٹ انتظامیہ کے پرنسپل سکریٹری کو خط لکھ کر دریافت کیا ہے کہ ان کے دفتر کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے افسران اور ملازمین کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور کب تک ان کو باہر کے افسران اور ملازمین سے کام کرانا پڑے گا ۔
اعظم خاں نے اپنے خط میں کہا کہ ۳ جنوری کو ان کے دفتر کے دو نجی سکریٹری اور پانچ ایڈیشنل نجی سکریٹری اچانک میری غیر موجودگی میں میرے پورے دفتر کو اور سارے دستاویز اور فائلوں کو لاوارث چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ میرے ذریعہ ان کے ساتھ غیر مہذبانہ سلوک کیا گیا ہے حالانکہ اس کے چند روز قبل ہی جب میںدورے پر روانہ ہوا تھا تو سبھی ملازمین خوشی کے ساتھ کام کر رہے تھے یہ سمجھ سے باہر ہے کہ مذکورہ ملازمی
ن کی جانب سے ایسا رویہ کیوں اختیار کیاگیا ۔ لیکن یہ ضرورہی پورے طور سے واضح ہے کہ ان سبھی ملازمین کی جانب سے ملازمین خدمات ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ۔ شاید یہ کوئی بہت بڑی سازش کا حصہ تھا جو میری سیاسی زندگی کو نقصان پہونچانے والا تھا اور اسی لئے ایسا کیا بھی گیا ہے لیکن جس طرح سے ان ملازمین کی جانب سے کام چھوڑ کر اور اہم دستاویز اور فائلوں کو چھوڑ کر دفتر سے بھاگ جانے کا کام کیا گیا وہ ضابطہ کے مطابق سخت قابل سزا بھی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پرنسپل سکریٹری سکریٹریٹ انتظامیہ کی ان ملازمین کے امپلائر اور افسر بھی ہیں سارا معاملہ ان کے علم میں ہے اس کے باوجود آپ کے ذریعہ مجھ سے مل کر ان واقعات کے سلسلے میں جو بات مجھ سے کی گئی تھی اور کارروائی کرنے کا یقین دلایا گیا تھا وہ سبھی باتیں آپ کو ضرور یاد ہوں گی لیکن ان سب کے باوجود ڈیڑھ مہینہ گزرنے پر بھی ان ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جبکہ مجھے اپنے نجی سکریٹری کے طور پر سکریٹریٹ انتظامیہ کے باہر کے ملازم اور ریاستی حج کمیٹی کے حج افسر تنویر احمد صدیقی سے کا رگزار نجی سکریٹری کے طور پر کام لیا جا رہا ہے ۔ مسٹراعظم نے خط میں آگے کہا کہ سکریٹریٹ انتظامیہ کی جانب سے میرے دفتر سے منسلک کئے گئے ان ملازمین کے ذریعہ جس طرح کی حرکت کی گئی وہ صرف میری ہی بے عزتی نہیں بلکہ ریاستی حکومت کے سبھی وزراء کی بے عزتی سمجھی جائے گی کیونکہ اگر اس طرح کچھ ملازمین میرے دفتر میں اس طرح کام کرسکتے ہیں اور جھوٹے الزام وزیر پر ہی عائد کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے اہم فائلوں اور دستاویز کو چھوڑ کردفتر سے چلے جاتے ہیں اور کام کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے ملازمین کے خلاف سکریٹریٹ انتظامیہ کوئی بھی کارروائی نہیں کرتا تو اس میں ایسے ملازمین کے حوصلے بلند ہوں گے انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ حکومتیں جمہوری طریقہ سے عوام کے ذریعہ منتخب نمائندوں کی ذریعہ چلائی جاتی ہیں یا سکریٹریٹ انتظامیہ کے ذریعہ ،یقینی طور سے آپ کے ذریعہ آج تک ان قصور وار ملازمین کے خلاف کو ئی کارروائی نہ کئے جانے سے ان سوالوں کے جواب صفر میں ہی پڑے ہوئے ہیں ۔