بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ہونے والا معمولی تصادم بھیانک فسادات کی شکل اختیار کر لے گا اور اس میں متعدد افراد کی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔ مجھے یہ ہنگامے دیکھ کر 1984 کے بدترین فسادات یاد آ گئے۔
اس وقت میں نیا نیا دہلی آیا تھا۔ میں نے کبھی کسی فساد کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ ہاں اخباروں میں پڑھا اور ریڈیو سے سنا ضرور تھا۔
میں نے اس دوران دیکھا تھا کہ فسادات کے دوران انسان کس قدر درندہ بن جاتا ہے۔ وہ کیسے انسانیت کے جامے کو تار تار کر دیتا ہے اور حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سکھوں کے مکانوں اور دکانوں کو جلتے دیکھا تھا۔ یہ بھی دیکھا تھا کہ کیسے زندہ انسانوں کے گلے میں ٹائر ڈال کر انہیں نذر آتش کر دیا جاتا تھا اور وہ انتہائی اذیت کی حالت میں تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے تھے۔
اس کے چند برس بعد یعنی بابری مسجد کے انہدام کے بعد میں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے جعفرآباد کے قریب ایک مسلم کالونی ‘ویلکم’ میں فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھے۔ میں ان دنوں ایک اردو ہفت روزہ کا ایڈیٹر انچارج تھا۔ میں نے فساد زدہ کالونی ‘ویلکم’ کا دورہ کیا تھا جہاں میں نے انسانیت جنازہ اٹھتے دیکھا۔
سال 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی یاد صرف مجھے ہی نہیں آئی بلکہ دہلی ہائی کورٹ کے جج حضرات کو بھی آئی ہے۔ ہائی کورٹ نے بدھ کو ہنگاموں سے متعلق ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوبارہ 1984 جیسے فسادات کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ایک جج ایس مرلی دھر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ان رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی جنہوں نے اشتعال انگیز بیانات دیے تھے اور تقریریں کی تھیں۔ انہوں نے سولیسیٹر جنرل کو ہدایت دی کہ جمعرات کی سماعت میں بتایا جائے کہ ان رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی یا نہیں۔
لیکن کئی امن پسند لوگوں کے دل اس وقت ٹوٹ گئے جب انہیں یہ خبر ملی کہ جسٹس ایس مرلی دھر کا تبادلہ پنجاب ہائی کورٹ میں کر دیا گیا ہے۔
حالانکہ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ یہ تبادلہ ضابطوں کی پابندی کے تحت کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ جسٹس ایس مرلی دھر کا تبادلہ راتوں رات کر دیا گیا؟
بہرحال 1984 کے سکھ مخالف فسادات تو پورے دہلی میں ہوئے تھے اور بابری مسجد کے انہدام کے بعد کے ہنگامے ایک محدود علاقے میں ہوئے تھے۔ لیکن حالیہ فسادات نے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جعفرآباد، سیلم پور، موج پور، چاند باغ، کردم پوری، بھجن پورہ، شیو وہار، کھجوری، اشوک نگر اور گوکل پوری وغیرہ کے علاقے آگ کا دریا بنے نظر آئے۔
مذہبی جنون اس قدر بڑھ گیا تھا کہ فسادی اور بلوائی لوگوں کو شناخت کر کے مارتے رہے۔ فسادی اپنے ہم مذہب کو تو چھوڑ دیتے لیکن دوسرے مذہب کے کسی شخص کو پاتے تو ہلّہ بول دیتے۔
دہلی کا گرو تیغ بہادر اسپتال لاشوں اور زخمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اسی اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ایک نوجوان سرفراز نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “انھوں نے میرا نام پوچھا۔ میں نے شروع میں کوئی دوسرا نام بتانے کی کوشش کی۔ جس کے بعد انہوں نے مجھ سے پتلون اتارنے کے لیے کہا۔ جب میں نے اپنا نام سرفراز علی بتایا تو انہوں نے مجھے ڈنڈوں سے پیٹ کر آگ میں جھونک دیا۔”
یہ صرف سرفراز کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کی کہانی ایسی ہی ہے جو بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔
ہمارے ایک صحافی دوست معصوم مراد آبادی کے سامنے ایک شخص کو اس طرح درندگی کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے اس کا تصور تک نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ “میں نے اپنی 35 برس سے زیادہ کی صحافتی زندگی میں بے شمار فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ کی ہے۔ میری آنکھیں بے شمار دل دہلا دینے والے واقعات کی گواہ ہیں۔ لیکن ایک نوجوان کی مظلومیت اور تکلیف دیکھ کر میں ابھی تک اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکا ہوں۔”
انگریزی روزنامہ ‘انڈین ایکسپریس’ کے رپورٹر شیو نرائن راج پروہت اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے جب فسادیوں نے ان کے سر پر بھی موت کی تلوار لٹکا دی تھی۔ لیکن انہیں محض اس وجہ سے چھوڑ دیا گیا کہ وہ فسادیوں کے ہم مذہب تھے۔
ایک اور مقامی نشریاتی ادارے ‘این ڈی ٹی وی’ کے رپورٹروں سوربھ شکلا اور اروند گن شیکھر سے بھی ان کے موبائل فون چھین لیے گئے اور مذہبی نعرے لگوائے گئے۔ پھر انہیں کہا گیا کہ انہیں اس لیے چھوڑا جا رہا ہے کہ وہ ان کے ہم مذہب ہیں۔
ہمارے ایک دوست اویس سلطان خان جعفر آباد کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رات کی تاریکی اور سناٹے میں گلیاں شرپسندوں اور بلوائیوں کے رحم و کرم ہوتی ہیں، اور خوف کا جو ماحول ہوتا ہے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں مسجدوں، خانقاہوں اور مزاروں کو نذر آتش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ویڈیو میں کچھ لڑکے ایک مسجد کے مینار پر چڑھ کر وہاں ہندوؤں کا مذہبی پرچم لہراتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہجوم میں شامل کچھ نوجوان بڑے فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے فلاں مسجد کو آگ لگائی اور کس طرح مزار یا خانقاہ کو نقصان پہنچایا۔
فسادات کے بعد متعدد مساجد کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ آگ اور دھوئیں نے ان کو بدہیئت کر دیا ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو فسادات کا پس منظر بہت معمولی تھا۔ تقریباً ایک ہزار خواتین جن میں اکثریت مسلم خواتین کی تھی، 23 فروری کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے شہریت قانون کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے ایک اہم سڑک بند ہو گئی تھی۔
چند گھنٹوں بعد اس سے کچھ دور کم از کم 500 ہندوؤں کا ایک مجمع اکٹھا ہو گیا جس کی قیادت اسمبلی انتخابات میں شکست خوردہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقامی رہنما کپل مشرا کر رہے تھے۔
انھوں نے ایک پولیس افسر کی موجودگی میں تین روز کا الٹی میٹم دیا اور دھمکی دی کہ اگر سڑک نہیں کھلی تو وہ پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔ یعنی وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔
لیکن اس سے پہلے ہی لوگوں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ہجوم نے دھرنے پر بیٹھی خواتین کی جانب پتھراؤ کیا۔ نتیجتاً دوسری جانب سے بھی پتھر بازی کی گئی۔
معاملہ اس وقت تو تھوڑی دیر بعد ٹھنڈا ہو گیا۔ لیکن اگلے روز یعنی 24 فروری کو لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بالآخر شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفوں کا یہ ٹکراؤ ہندو مسلم فسادات میں تبدیل ہو گیا۔ دکانوں، مکانوں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جانے لگا۔
افسوس ناک بات یہ رہی کہ دو روز تک پولیس ان مقامات پر یا تو موجود ہی نہیں تھی یا اگر تھی تو خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی یا پھر فسادیوں کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔
لیکن اس دوران کئی اچھے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ ایسے کئی علاقوں میں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ رہتے ہیں، ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں کو بچایا اور مسلمانوں نے مندروں اور ہندوؤں کے گھروں کی حفاظت کی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی حیوانیت اور انسانیت کے درمیان مقابلہ ہوا ہے تو جیت انسانیت کی ہوئی ہے۔ دہلی فسادات میں بھی اس کی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔