ممبئی، 24 اکتوبر (یو این آئی) ساحر لدھیانوی ہندی سنیما کے ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جن کی شعری اور ادبی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، دنیائے سخن میں انہیں امتیازی مقام حاصل ہے۔
ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔
ان کا حقیقی نام عبدالحئی تھا۔
(8مارچ یوم پیدائش کے موقع پر)
ابتدائی تعلیم خالصہ اسکول سےحاصل کی۔
اس کے بعد لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔
انہوں نے کالج کے زمانے سے ہی شاعری کا آغاز کر دیا تھا اور وہ اپنی غزلیں اور نظمیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے جس سے انہیں کافی شہرت ملی۔
*****
ساحر لدھیانوی : کا میاب شاعر، ناکام عاشق
آؤ کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے ……
(8مارچ یوم پیدائش کے موقع پر)
کل کے لئے بننے والا وہ مرد مجاہد ،وہ فولادی ارادوں والا انسان، جس نے کبھی حالات سے ہار نہیں مانی، جس نے انتہائی مایوسی اور کشمکش کے دنوں میں بھی امید کی روشنی اپنے دل ودماغ میں بسائے رکھی، اب ایک ایسے خواب میں ڈوبا ہوا ہے جس کی تعبیر وہ کسی سے کبھی معلوم نہ کرسکے گا۔
ساحر لدھیانوی کے دادا فتح محمد لدھیانوی کے ایک بہت بڑے رئیس زمیندار تھے۔ ساحر لدھیانوی کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا۔ چودھری فضل محمد نے 1920میں ایک معمولی خاندان کی لڑکی سردار بیگم سے نکاح کرلیا جبکہ ان کی پہلے سہی کئی بیویاں موجود تھیں ۔مگر وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار تھے او رکئی کئی بیویاں رکھنا ان کے لئے بڑی شان وشوکت کی بات تھی۔ سردار بیگم کشمیری نسل کی تھیں۔ اس طرح 8مارچ 1921کو سردار بیگم سے جو بیٹا پیدا ہوا ، چودھری فضل محمد نے اس کانام عبدالحئی رکھ دیا۔ چند برسوں کے بعد ہی سردار بیگم کا اپنے شوہر فضل محمد سے جھگڑا ہوگیا اور وہ عبدالحئی کو ساتھ لے کر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئیں ۔ اس وقت عبدالحئی کی عمر صرف سات برس تھی جب چودھری فضل محمد نے اس کو اپنی سرپرستی میں لینے کے لئے عدالت میں درخواست لگادی ۔ عدالت میں جب عبدالحئی سے پوچھا گیاکہ وہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو اس نے اپنی کم سخن ماں کی طرف اشارہ کردیا اور اس طرح عبدالحئی ہمیشہ کے لئے اپنےباپ سے دستبردار ہوکر اپنی ماں کے حصہ میں آگیا۔
شہر لدھیانہ ،جسے عبدالحئی کے مولد ہونے کا فخر حاصل ہے، عبدالحئی نے جب اس شہر کے تہذیبی اور سماجی ماحول میں شعور کی آنکھیں کھولیں تو وہاں ایک طرف زوال یافتہ جاگیر ادر یت کی فرسودہ باقیادت تھیں اور انگریزی سامراج کے زیر سایہ ایک نیم سرمایہ دارانہ صنعتی نظام تشکیل پارہا تھا، اور دوسری طرف بے زمین کسان تھے جنہیں بھر پیٹ روٹی بھی مشکل سے میسر آتی تھی۔ عبدالحئی کےذہن پر اس سب کا تاثر بچپن سے ہی تھا۔
لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں 1928میں عبدالحئی کا داخلہ ہوگیا اور جب 1937میں وہ ہائی اسکول کر کے انٹر میں داخل ہوا تو شعر وشاعری کی طرف راغب ہوگیا او رپہلا شعر کہہ کر عبدالحئی ساحر لدھیانوی بن گیا ۔ یہاں اس کی ادبی تربیت ہریانہ کے ایک استاد فیاض ہریانوی نے کی، جو خود بھی شعر وشاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ 1939میں انٹر پاس کرنے کے بعد عبدالحئی عرف ساحر لدھیانوی نے تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھتے ہوئے لدھیانہ کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ شعر وشاعری سے شوق رکھتے ہوئے ساحر نے یہاں سیاست اور معاشیات کے مضامین پڑھنے میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستان کی تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی اور انگریز بھی اپنے ظلم وجبر کا استعمال اسلحہ اور سازشوں کے زور پر دل کھول کر کررہے تھے ۔ ادھر باپ کی ظالمانہ روش سے ساحر کے دل میں جاگیر دارانہ نظام کے تئیں نفرت کا بیج پہلے ہی بویا جاچکا تھا ۔لہٰذا یہ سب چیزیں ساحر کی شاعری میں اس طرح گھل مل گئیں کہ اس کا رومان بھی حالات حاضرہ کی بھٹی میں تپ کر اس کے شعروں میں ڈھلنے لگا۔
ساحر اپنی والدہ کی سرپرستی اور نگرانی میں تعلیم پاتے رہے ۔ اسکول اور کالج میں ان کا شمار اچھے اور محنتی طالب علموں میں ہوتا تھا۔ اردو اور فارسی کی تعلیم انہوں نے مولانا فیاض ہریانوی سے حاصل کی اور ان ہی کے فیض تربیت سے نہ صرف ساحر کو ان زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا بلکہ شعر وادب میں بھی انہیں خاصی دلچسپی پیدا ہوگئی ۔
ساحر کا ابھی کالج میں بی۔ اے کا پہلا ہی سال تھا کہ کالج کے پرنسپل کی لڑکی سے اسے عشق ہوگیا ۔ جس کی پاداش میں ساحر کو کالج سے نکال دیا گیا۔ برسوں بعد جب ساحر ہندوستان کا ایک بڑا شاعر اور فلمی دنیا کا مقبول ترین نغمہ نگار بن گیاتو اسی کالج میں اس کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا، جہاں ساحر نے اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘نذر کالج’’ پڑھی’جس کے آخری مصرعے یوں تھے…..
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں تو یاں کے نکالے ہوئے تو ہیں
بی ۔اے کے آخری سال میں وہ لدھیانہ سے لاہور منتقل ہوگئے ،جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے۔ ساحر کا اولین مجموعہ کلام ‘‘تلخیاں ’’ زمانہ طالب علمی ہی میں شائع ہوچکا تھا اور وہ ایک ابھر تے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔
1944میں طالب علمی کا ہی زمانہ تھا جب ساحر لدھیانوی کا پہلا شعری مجموعہ ‘‘تلخیاں ’’شائع ہوا۔ ساحر کا یہ مجموعہ اتنا مقبول ہوا کہ شاید ‘‘دیوان غالب’’ کے بعد سب سے زیادہ اردو شاعری میں فروخت ہونے والی کتاب ‘‘تلخیاں’’ ہی ہے۔ اس مجموعے کے اب تک 50سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، جس کے پہلے ہی صفحے پر ساحر کا یہ شعر درج ہے…..
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ا س شعر سے ہی ساحر کی شاعری کا رنگ وآہنگ اپنا تعارف کرادیتا ہے ۔ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کسی اردو شاعر کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی تعداد میں کسی کا کوئی شعری مجموعہ فروخت ہوا ہو۔
لدھیانہ گورنمنٹ کالج سے نکالے جانے کے بعد جب ساحر لاہور چلے گئے او روہاں دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا تو اس کے ساتھ ہی لاہور میں مکتبہ اردو والوں کا رسالہ ‘‘ ادب لطیف’’ میں چالیں روپے ماہانہ تنخواہ پر ساحر ایڈیٹر بھی مقرر ہوگئے۔ لاہور ہی میں ساحر کو ‘‘سویرا’’ اور ‘‘شاہکار’’ رسالوں کی ادارت کے مواقع بھی ملے ۔ اس وقت تک پنجابی کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پریتم کی شادی ہوچکی تھی اور وہ آل انڈیا ریڈیو ،لاہور میں اناؤنسر تھیں۔ لاہور سے پہلے ساحر کی ایک ملاقات امرتا پریتم سے امرتسر کے قریب پریت نگر کے ایک ادبی سالانہ جلسے میں ہوچکی تھی۔ لاہور میں امرتا اور ساحر کی دوستی ادبی حلقوں میں کافی گفتگو کا موضوع بنی رہی ۔خود امرتا پریتم نے اپنی سوانح ‘‘رسید ی نکٹ’’ میں ساحر سے اپنی دوستی کے واقعات بڑی ایماندارانہ بے باکی کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔
1982سے 1988کے درمیان میں خود جب ‘‘سٹار پبلی کیشنر ’’ کے فلمی ماہنامہ ‘‘مودی اسٹار’’ میں مدیر تھا تو بارہا امرتا پریتم کے یہاں میرا جانا ہوا، اور مجھے یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ میں نے کئی بار امرتا اور امروز کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چائے پی ہے۔ جب بھی میں امرتا پریتم کے گھر گیا ،میں میں نے ہر بار چاروں طرف ،وہاں کے درودیوار پر ، ڈرائنگ روم میں اور امروز کی پینٹنگ میں ،وہاں کی سجاوٹ اور فرنیچر میں ،غرض ہر جگہ ساحر کی موجودگی کو محسوس کیا ہے۔ میں نے امرتا پریتم کے بیٹے کے چہرے پر ہر بار ساحر کے نقوش کی جھلک محسوس کی ہے۔ ایک بار جب میں نے امرتا سے یادگار کے طور پر آٹوگراف کی فرمائش کی تو انہوں نے پنجابی زبان میں لکھا…..
‘‘پرچھائیوں کے پیچھے بھاگنے والوں!سینے میں جو آگ سلگتی ہے، اس کی کوئی پرچھائی نہیں ہوتی۔’’
یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے کہ بمبئی میں ساحر کے مکان کا نام بھی ‘‘پر چھائیاں’’ تھا اور اس کی ایک مشہور نظم کا عنوان بھی۔ بہر حال ،یہاں میرا مقصد امرتا پریتم اور ساحر کی دوستی کی تفصیلات میں جانے کا ہر گز نہیں ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ساحر لدھیانہ آگئے اور پھر جنوری 1946میں بمبئی چلے گئے ۔ ہندوستان کی آزادی کے نتیجے میں جو فرقہ وارانہ آگ پھیلی ، اس میں ساحر بھی جھلسے کیونکہ ان کی ماں سردار بیگم فسادات میں کہیں کھوگئیں۔ ساحر بمبئی چھوڑ کر لاہو ر گئے اور کافی جد وجہد کے بعد ماں کی تلاش کرلیا۔ ستمبر 1947میں جب ساحر دوبارہ لاہور گئے تو تقسیم ہند کے نتیجے میں امرتا پرتیم اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ ہندوستان آچکی تھیں۔ ساحر بھی جو 1948میں لاہور سے دہلی منتقل ہوگئے اور تقریباًٰ ایک برس تک دہلی میں رہے۔ دہلی میں ساحر لدھیانوی بدر صاحب اور محمد یوسف جامعی صاحب کے ادارے حالی پبلشنگ ہاؤس سے وابستہ ہوگئے اور یہیں سے انہوں نے ماہنامہ ‘‘شاہرہ’’ کا اجرا کیا۔ پرکاش پنڈت اس رسالے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ اسی درمیان ساحر سے امرتا کی دوستی میں شدت آگئی، اور شاید یہی وہ زمانہ تھا جب امرتا پریتم کی اپنے شوہر سردار پریتم سنگھ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ شاید امرتا پریتم ساحر سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر ساحر اپنے ماضی کی تلخیوں سے ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوسکے تھے۔ تب امرتا پریتم نے دل سے دعا کی کہ اس کا ہونے والا بیٹا ساحر کی شکل لے کر پیدا ہو، خدا نے اس کی دعا قبول کی اور امرتا نے بھی اس دوران ساحرکو اتنا سوچا کہ جب اس کا بیٹا پیدا ہوا تو اس کی شکل کافی حد تک ساحر سے ملتی تھی۔
جب 1948میں ساحر نے دہلی سے ماہنامہ ‘‘شاہراہ’’ کا اجرا کیا تو اس کے ساتھ ہی رسالہ ‘‘پریت کی لڑی’’ کی بھی ادارت کی ۔ ان رسائل کے ذریعہ انہوں نے نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی اور رہنمائی کی ۔ 1949میں ساحر جب دوسری بار بمبئی گئے تو وہاں ہندوستانی کلامندر کی فلم ‘‘آزادی کی راہ پر’’ کےلئے گانے لکھوانے کے غرض سے فلمساز کلونت رائے نے ساحر کو بلوایا تھا ۔ اس فلم کے چار گانے ساحر نے لکھے تھے۔ پہلے گانے کے بول تھے….
بدل رہی ہے زندگی….’’ مگر ان گانوں کو زیادہ مقبولیت نہیں ملی ۔1950میں ساحر نے مستقل طور پر دہلی کوالوداع کہہ کر بمبئی میں سکونت اختیار کرلی اور فلمی نعمہ نگاری پر پوری توجہ لگادی ۔ 1949کے بعد فلمی زندگی کی مصروفیات نے ساحر کو اس طرح گھیر لیا کہ تخلیقی شاعری کے لئے مناسب وقت نکالنا ان کے لئے مشکل ہوگیا۔ اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی کہ فلمی گیتوں کو اپنے تخلیق اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور فلموں کےلئے انہوں نے جو گیت او رغزلیں لکھیں ، ان میں اپنے سیاسی اور سماجی تصورات کے اظہار کی بھی گنجائش نکال لی۔
1958میں ساحر لدھیانوی نے فلمساز رمیش سہگل کی فلم ‘‘ پھر صبح ہوگی’’ کے نغمے لکھے۔ یہ فلم عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوسکی کےمشہور زمانہ ناول ‘‘کرائم اینڈ پنشمینٹ ’’ کے مرکزی خیال پر بنائی گئی تھی۔ راجکپور کے پسندیدہ میوزک ڈائریکٹر شنگر جےکشن اس فلم کا میوزک تیار کرنے والے تھے۔ مگر ساحر نے کہا کہ اس فلم کا میوزک وہی بنائے گا جس نے مذکورہ ناول پڑھا ہوگا۔ تب موسیقار خیام کو اس فلم کا میوزک دیا گیا اور انہوں نے ساحر کے نغمہ …..‘‘وہ صبح کبھی تو آئے گی….’’ کی دھن تیار کی، او رمکیش نے اس نغمے کو بہت خوبصورت انداز میں گایا ہے۔ اس کے بعد کئی فلموں میں ساحر کے گیتوں کو خیام نے اپنی دھنوں سے سجایا جن میں ‘‘کبھی کبھی’’ بھی ایک اہم فلم ہے۔
ساحر نے نہ صرف یہ کہ اپنی شاعری کے معیار کو گرنے نہیں دیا ،بلکہ فلمی شاعری کے معیار کو بھی بلند کیا اور اس بدذوقی کی روک تھام کی جسے فلم بینوں پر مسلط کیا جارہا تھا۔ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کےبعد اگرچہ ان کی شعر گوئی کی رفتار نسبتاً کم ہوگئی لیکن شاعر کی حیثیت سے ان کی مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بہت کم ادیبوں اور شاعروں کو ان کی زندگی میں اتنی شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔اس معاملے میں ساحر لدھیانوی اردو شاعروں میں سب سے زیادہ خوش قسمت رہے ہیں۔ ساحر اپنے دور میں نہ صرف ہندوستان کے سب سے محبوب اور ہر دلعزیز شاعر تھے ، بلکہ عالمی اہمیت کے شعرا میں انہوں نے اپنامقام پیدا کرلیا تھا۔ دنیا کی مختلف زبانوں جیسے انگریزی ،فرانسیسی ،چیک، روسی، فارسی اور عربی میں ان کی شاعری کے ترجمے کئے جاچکے ہیں۔
ساحر جتنے بڑے شاعر تھے، اتنے ہی عظیم انسان تھے۔ ان کی زندگی اور ان کے فن میں کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ اپنی شاعری میں انہوں نے انسان اور انسانیت کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ خود بھی اس معیار پر بڑی حد تک پورا اترتے تھے۔
انہوں نے اپنی ادبی شاعری میں جہاں عورت کی عزت وعصمت کی حمایت کی ہے، وہیں اپنے فلمی گیتوں میں بھی وہ عورت ہو پرنے والے ظلم وستم کے خلاف کھل کر آواز اٹھاتے ہیں۔ فلم ‘‘پیاسہ ’’ کا نعمہ…اور فلم ‘‘سادھنا’’ کا نعمہ….‘‘عورت نے جنم دیا مردوں کو ….’’ اور فلم ‘‘انصاف کا ترازو ’’ میں ساحر لا لکھا گیت…..’’ لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں …..’’ اس بات کے بہترین شاہد ہیں۔ وہ زندگی بھر جنگ وجدل کے مخالف رہے ۔ وہ جانتے تھے کہ سیاستداں اکثر اپنے سیاسی مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کےلئے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہادیتے ہیں۔ درحقیقت وہ قاتل اور لٹیرے ہیں، وہ انسانی جان کی قیمت نہیں جانتے ہیں۔
ساحر شروع سے ہی انجمن ترقی پسندمصنفین سے وابستہ ہوگئے تھے،مگر ساحر کی انقلابی اور سیاسی شاعری حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور نعرہ بازی سے پاک ہے۔ انہوں نے بے خوفی کے ساتھ دوٹوک انداز میں براہ راست اپنے خیالات اپنی شاعری کےذریعہ پیش کردیئے ہیں۔
ساحر کی شاعری محض زلف ورخسارکی آئینہ دار نہیں بلکہ پر خیال ہے اور وہ انسان کو ذہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل ودماغ میں نئی نئی فکر کے بیج بوتی ہے، نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وہ یقیناً ساحر کی روح کی آواز ہے۔ وہ اس شاعر کی پکار ہے جس نے اپنی زندگی لمحہ لمحہ انسانی محبت کے چراغ روشن کرتے ہوئے گزاردی۔ ساحر کی بے پناہ مقبول نظموں میں ‘‘تاج محل’’ کو اتنا پسند کیا جاتا تھا کہ جب کبھی کسی مشاعرے میں ساحر مائک پر آتے تھے تولوگ ‘‘تاج محل تاج محل’’ کہہ کر چلانے لگتے تھے۔ حالانکہ تاج محل پر ساحر سے پہلے اور بعد میں بھی کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں، مگر اردو شاعر ی میں ساحر تنہا ایسے شاعر ہیں جنہوں نے صدیوں سے محبت اور عظیم اور لاثانی یادگار مانے جانے والے ‘‘تاج محل’’ کے سائے میں اپنے محبوب سے ملنے سےانکار کردیا اور تاج محل کے بارے میں ایک بالکل نیا اور اچھوتا نظریہ عوام کے سانے پیش کیا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ اس نظم کو لکھنے سے پہلے تک ساحر نے تاج محل دیکھا بھی نہیں تھا۔
ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطانپوری سے پہلے فلمی نغمہ نگار ی میں ٹھیٹ ادبی قسم کی لفظیات اور ادبی نظموں کے استعمال کی قطعی گنجائش نہیں تھی لیکن ساحر نے اپنی تمام ادبی نظموں کو فلموں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا کہ وہ فلم کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہیں ۔جیسے فلم ‘‘گمراہ’’ میں سنیل دت نے مہندر کپور کی آواز میں ساحر کی نظم پڑھی……‘‘چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ….’’ یہ ساحر کا ہی جگر ہے جو وہ اس طرح اپنی محبوبہ سے مخاطب ہوتا ہے، ورنہ تو اردو شاعری محبوبہ کے ناز نخرے اٹھانے اور اس کی خوشامدوں بھری پڑی ہے۔ اسی طرح فلم ‘‘پیاسا’’ میں ان کی مشہور زمانہ نظم ‘‘چکلے’’ بخوبی استعمال ہوئی ہے اور یہ دونوں نظمیں ہی فلم کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح فلم ‘‘لیلیٰ مجنوں’’ کے ایک نغمے کا یہ بند ملاحظہ ہو…
بہت رنجور ہے یہ، غموں سے چور ہے یہ
خدا کا خوف کھاؤ، بہت مجبور ہے یہ
…..اب اس بند میں لفظ ‘‘رنجور’’ ساحر لدھیانوی جیسا نغمہ نگار ہی استعمال کرسکتا ہے۔
ساحر اپنی زندگی میں ایک چیلنج تھے ہمارے روایتی شاعروں او رہماری روایتی شاعری کے لئے، ہمارے روایتی مجنوں کےلئے اور ہمارے روایتی فرسودہ معاشرے کےلئے ۔ اس سے اپنا قلم اٹھایا تو ماضی کی عشقیہ شاعری کو پسینہ آگیا۔ معاشرے کی فرسودہ روایات کی دھجیاں بکھر گئیں ۔ ساحر نے اردو شاعر ی میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ انہوں نے انقلابی شاعری کے دروازے کھول دیئے او راپنی شاعری کو عوامی رنگ میں پیش کیا۔ موجودہ زندگی کے مسائل اور استحصال کو جتنے خوبصورت او رسہل انداز میں ساحر نے پیش کیا ہے، کوئی دوسرا شاعر پیش نہیں کرسکا ۔
ساحر اپنے قریبی دوستوں میں شہزادے کے نام سے مشہور تھے ، لہٰذا بے پناہ مخلص ہونے باوجود ان میں خودداری اور انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، شاید اس لیے بھی کہ وہ بچپن سےہی بہت ضدی تھے۔ یہی وجہ ہے کے انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ محرومیوں اور نامرادیوں میں گزارا ۔مگر ان کی تخلیقات نے جو عزت اورشہرت ،اور بعد میں دولت بھی ان کو دلوائی ،وہ بہت کم ہی اردو شاعر وں کے حصہ میں آئی ہے۔
ساحر لدھیانوی کی انا اور خودداری کی ہی بات تھی جو گلوکار ہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان کے کاروباری اختلافات ہوگئے اور ساحر نے ایک نئی گلوکارہ سدھا ملہوترہ کو آگے بڑھاناشروع کیا۔ اسی دوران سدھا ملہوترہ سے ان کےعشق کی داستانیں عام ہونے لگیں ، اور دونوں شادی کرنے کےلئےآمادہ بھی ہوگئے۔ مگر سدھا ملہوترہ کے والدین اس شادی کےخلاف تھے۔ لہٰذا انہوں نے سدھا کی شادی کہیں دوسری جگہ طے کردی۔ سدھا ملہوترہ کی ضد پر ہی ساحر اس کی منگنی شریک ہوئے او رانہوں نے وہاں بھری محفل میں اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ….’’ سنائی اور سدھا ملہوترہ دلہن بنی زار وقطار روتی رہی۔ کچھ دنوں تک یہ بھی سنا جاتا رہا کہ سدھا ملہوترہ سے پہلے ساحر لتا منگیشکر سےشادی کرنا چاہتے تھے اور اس ناکامی کی وجہ سے ہی ساحر اور لتا میں اختلافات ہوئے تھے۔
ساحر کی شاعری کے ہر معاشقے کا انجام ناکامی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور ساحر اس ناکامی کا ذمہ دار اس سماجی ماحول کو قرار دیتے ہیں جس پر سیاست کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ لتا منگیشکر سے ساحر کے عشق کی گواہ ان کی وہ نظم ہے جو رسالہ ‘‘فنکار’’ میں ‘‘تیری آواز’’ کے عنوان سے شائع ہوئی اور جو تلخیاں کے بعد کے ایڈیشنز میں شائع ہوئی۔
یوں اچانک تری آواز کہیں سے آئی
جیسے پربت کا جگر چپر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں تڑپ کرناگاہ
آسمانوں سے کوئی شوخ ستارہ ٹولے
شہد سا گھل گیا تلخابۂ تنہائی میں
رنگ سا پھیل گیا دل کےہ سیہ خانےمیں
دیر تک یوں تری مستانہ صدائیں کونجیں
جس طرح پھول چٹکنے لگیں ویرانے میں
تومرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تک
تیرا ہر سانس مرے جسم کو چھوکر گزرا
قطرہ قطرہ ترے دیدار کو شبنم ٹپکی
لمحہ لمحہ تری خوشبو سے معطر گزرا
اب یہی ہے تجھے منظور تو اے جان قرار
میں تری راہ نہ دیکھوں گا سیہ راتوں میں
ڈھونڈ لیں گی مری ترسی ہوئی نظریں تجھ کو
نغمہ وشعر کی امڈی ہوئی برساتوں میں
(نظم : تیری آواز)
لتا سے اپنی محبت کا اظہار ساحر نے اپنی ایک اور نظم انتظار میں بھی کیا ہے اور یہ نظم بعد میں فلم میں بھی استعمال ہوئی ہے……
چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے
دور وادی میں دودھیا باول
جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا نتظار کرتے ہیں
ان بہاروں کے سائے میں آجا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نامرادوں پر
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے
روز کی طرح آج بھی تارے
صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ، ترے غم میں جاگتی آنکھیں
کم سے کم ایک رات سوجائیں
چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے
(نظم : انتظار)
ساحر لدھیانوی جس لب و لہجے میں شاعری کرتے تھے، وہ الگ ہی پہچانا جاتا ہے ۔18فروری 1969میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کےصد سالہ جشن پیدائش پر تاریخی لال قلعہ کے ایک عالیشان مشاعرے میں ساحر نے جو نظم پڑھی ، وہ نہ صرف ساحر کے لب ولہجہ کی غماز ہے بلکہ اس نظم میں اردو زبان کے لیے ساحر کے دلی احساسات کی ترجمانی بھی ہوتی ہے ، اور ہمارے اس جمہوری نظام کی آئینہ دار ی بھی ہوتی ہے کہ جس طرح اس ملک کی پیدا ہوئی ، پرورش ہوئی او ر یہاں کے محلوں ،گلی کوچوں میں بسنے والی زبان کو سیاست کی بدبودار کیچڑ میں رچے بچے کو سیاستدانوںص نے غدار ٹھہرا دیا اور بتیس دانتوں کے درمیان رہتے ہوئے یہ زبان آج بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ نظم صرف ساحر ہی کہہ سکتے تھے۔ ملاحظہ ہو……
اکیس برس گزرے آزادی کامل کو
تب جاکر کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا
تربت ہے کہاں اس کی مدفن ہےکہاں اس کا
اب اپنے سخن پر ور ذہنوں میں سوال آیا
سوسال سے جو تربت چادر کو ترستی تھی
اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوابرسوں
ان شہروں میں اب اردو بے نام ونشاں ٹھہری
آزادی کا مل کا اعلان ہوا جس دن
اس ملک کی نظروں میں غدار زباں ٹھہری
جس عہد سیاست نے یہ زندہ ز باں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہو
غالب جسے کہتے ہیں اردو ہیا کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھاکے غالب پہ کرم کیوں ہو
یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدۂ فردا پر اب اٹل نہیں سکتے تھے
ممکن ہے کہ کچھ عرصے اس جشن سے ٹل جائیں
یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے
ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں
گاندھی ہوکہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں
ہم دونوں کے قاتل ہیں دونوں کے پجاری ہیں
(نظم : غالب اور جشن جمہوریت)
ساحر کی خودداری کا ایک اور و اقعہ اس طرح ہے کہ ایک بار یش چوپڑا کے کسی فلمی نغمے کی ریکارڈنگ تھی جس میں ساحر بھی موجود تھے،کیونکہ وہ نغمہ ساحر نے ہی لکھا تھا۔ ساحر سے یش چوپڑا کی بہت اچھی دوستی بھی تھی ۔ ریکارڈنگ کے وقت جب لتا منگیشکر آئیں تو ان کا بڑا پرُ تپاک خیر مقدم کیا گیا، گلدستے پیش کیے گئے اور پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے ۔ جبکہ ساحر کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بات ساحر کو بہت ناگوار گزری ۔انہوں نے شام سے ہی خوب شراب پی اور دیر رات تک ایک بجے یش چوپڑا کو فون کیا۔ اتنی رات کو فون پر ساحر کی آواز سن کر پش چوپڑا گھبرا گئے۔ ساحر نے یش چوپڑا سے فون پر پنجابی لہجے میں کہا ۔‘‘اوئے یش! لتا کی آواز بہت خوبصو رت ہے نا…..تم ایسا کرو کہ اس کی آواز ریکارڈ کرا لو اور میرے لفظ واپس دے دو۔’’ یش چوپڑا نے فون پر ساحر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنا ہی جملہ دوہراتے رہے ۔صبح کو یش چوپڑا نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ ساحر کے گھر ‘‘پر چھائیاں’’ پہنچے اور اس بات کے لئے ساحر سے معذرت کی ۔صبح تک ساحر کا نشہ بھی اتر چکا تھا ۔ بات آئی گئی ہوگئی اوردونوں کی دوستی لمبے عرصے تک برقرار رہی۔
فلم ‘‘بازی’’ کے نغمے ساحر نے لکھے تھے اور موسیقار ایس۔ ڈی برمن نے دھنیں تیار کی تھیں۔ اس فلم کے سارے گیت ہٹ ہوئے تھے ۔ اس کے بعد ایک فلمی پارٹی میں ایس ۔ٹی برمن نے ساحر کی موجودگی میں یہ کہا کہ میری دھنوں کی وجہ سے اس فلم کے نعمے مقبول ہوئے ہیں، نہ کہ ساحر کی شاعری کیوجہ سے ۔لہٰذا ساحر نے اسی وقت طے کرلیا کہ وہ اب کسی مشہور میوزک ڈائریکٹر کے لئے گیت نہیں لکھے گا اور دنیا کو بتادے گا کہ میوزک ڈائریکٹر سے کہیں زیادہ بڑا شاعر ہوتا ہے۔ فلم ‘‘ بازی ’’ کے بعد ساحر نے کسی مخصوص یا سکہ بند میوزک ڈائریکٹر کے لئے گیت نہیں لکھے ،بلکہ نئے نئے موسیقاروں کےلئے نغمے تحریر کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ساحر کے گیت لگاتار مقبول ہوتے رہے۔
اپنے زمانے کے مقبول فلمساز وہدایتکار گرودت بھی ساحر کی شاعری سے بے حد متاثر تھے اور وہ اپنی فلموں کے نغمے ساحر سے ہی لکھواتےتھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ‘‘پیاسا’’ میں ساحر کی زندگی کی جھلک بھی پیش کی اور نہ صرف کے اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے بلکہ یہ فلم ثابت ہوئی ۔ کافی عرصے بعد یش چوپڑا نے بھی اپنی فلم ‘‘کبھی کبھی ’’ میں ساحر کی زندگی کا عکاسی کی اور اس فلم کے نغمے بھی ساحر نے ہی تحریر کیے تھے ۔ فلم ‘‘کبھی کبھی ’’ یش چوپڑا کی بے حد کامیاب فلموں میں سے ایک ہے۔
ساحر لدھیانوی کو 1963میں سب سے پہلے فلم ‘‘تاج محل’’ کے نغموں کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور دوسری بار 1976میں فلم ‘‘کبھی کبھی ’’ کےلئے فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ حکومت ہند کی طرف سے انہیں 1971میں پدم شری سے نوازا گیا اور ا ن کے تیسرے شعری مجموعہ ‘‘آؤ کہ کوئی خواب بنیں ’’ کے لیے 1972میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد مہاراشٹر اردو اکیڈمی اور مہاراشٹر اسٹیٹ ایوارڈ سے بھی ان کو نوازا گیا۔
ساحر ایک نظم نگار کی حیثیت سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں اور انہوں نے زیادہ تر نظمیں ہی لکھی ہیں ،لیکن صنف غزل میں بھی ان کی اپنی انفرادیت نمایاں ہے اور وہ اس معروضے کی نفی کرتے ہیں کہ ایک نظم نگار شاعر اچھا غزل گو نہیں ہوسکتا ۔ ساحر کو غزل گوئی سے فطری مناسبت بھی ہے، کیونکہ ان کی نظمیں بھی تغزل سے خالی نہیں ہوتیں ۔
ساحر نے فلموں کے لئے جو گیت لکھے ہیں ان میں سے اکثرگیت عام فلمی گیتوں کی ڈگر سے ہٹے ہوئے ہیں ۔کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ فرمائش گیت ہیں اور کسی داخلی تحریک کے بغیر موسیقار کی دی ہوئی دھنوں پر لکھے گئے ہیں۔ ان میں شعریت کے ساتھ ساتھ جذبے واحساس کی شدت بھی پائی جاتی ہے۔
اپنی طرز کا یہ واحد اور مقبول ترین شاعر 25اکتوبر 1980کو سانجھ ڈھلے 57برس کی قید حیات سے نجات پاکر اور اپنے الفاظ کا جادو پوری آب وتاب کے ساتھ لوگوں ک دل ودماغ پر چلتا ہوا چھوڑ کر چپ چاپ گہری او رابدی نیند سوگیا…… کبھی نہ جاگنے کےلئے ۔مگر اس کی ساحر کے الفاظ میں ….
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
جسم مرجانے سے انسان نہیں مرجاتے ہیں
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مرجاتے ہیں
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مرجاتے
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
( مسعودہ نکہت)
پس نوشت :_ ساحر اور مشہور اردو پنجابی کی ادیبہ امرتا پریتم کا عشق جگ ظاہر ھے جسکا اقبال امرتا نے کھلے الفاظ میں کئ جگہ کیا ھے
لیکن ساحر کا نام مشہور فلمی مغنیہ سدھا ملھوترا سے بھی جڑا اور سدھا کو اس کی قیمت فلمی دنیا تیاگ کر ادا کرنی پڑی