امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 26 یورپی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرتے ہوئے عوام کو امریکا کا سفر کرنے سے روک دیا۔انہوں نے یہ اقدام کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی لینے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر اٹھایا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس ڈرامائی اقدام کا اعلان انہوں نے اوول آفس میں ایک تقریر کرتے ہوئے کیا کیوں کہ انہیں اس مہلک وائرس کے باعث امریکا کو پہنچنے والے صحت اور معاشی دھچکوں سے لڑنا اور اس تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا تھا کہ انہوں نے اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
مذکورہ سفری پابندی کا اطلاق برطانیہ اور آئرلینڈ پر نہیں ہوگا نہ ہی یہ پابندی امریکی شہریوں کے لیے ہے۔
اس کے ساتھ امریکی صدر نے صارفین کی طلب میں کمی سے اچانک نقصانات کا سامنا کرتے امریکی کاروباروں کو سہارا دینے کے لیے بھی متعدد معاشی اقدامات کا اعلان کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘یہ جدید تاریخ میں ایک غیر ملکی وائرس کا سامنا کرنے کی سب سے جامع اور جارحانہ کوشش ہے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں پر اعتماد ہوں کہ اس قسم کے سخت اقدامات اٹھاتے رہنے سے ہم اپنے شہریوں کو لاحق خطرات کو بڑی حد تک کم کردیں گے اور بلآخر ہم تیزی سے اس وائرس کو شکست دے دیں گے۔
بعد ازاں یورپ سے تجارت اور ساز و سامان بھی بند ہونے کے حوالے سے ابہام کے باعث انہیں تقریر کے چند لمحوں بعد ہی ٹوٹ کرنی پڑی جس میں انہوں نے کہا کہ سفری پابندیوں سے تجارت متاثر نہیں ہوگی۔
صدر کے خطاب کے بعد امریکی اسٹاک مزید 4 فیصد گر گیا جس سے اس بات کا اشارہ ملا کے وال اسٹریٹ کے لیے خسارے کا ایک اور دن منتظر ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ، جن کا دوسرا انتخاب 3 نومبر کو ہونا ہے اس بات پر منحصر ہوسکتا ہے کہ وہ بحران پر کتنا اچھا رد عمل دیتے ہیں جو اچانک ان کے دورِ صدارت میں سامنے آگیا۔