وال اسٹریٹ میں 1987 کے بعد سب سے شدید مندی کے بعد ایشیائی مارکیٹ میں بھی کمی آگئی جہاں جاپان، تھائی لینڈ اور بھارت کے بینچ مارک میں 10 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس پر تشویش بڑھنے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں مارکیٹ گرنے کے بعد دنیا بھر میں اعتماد میں کمی آئی جس کی وجہ سے مارکیٹوں میں یہ رد عمل سامنے آیا۔
بنکاک اور ممبئی میں تجارت کو مارکیٹ میں 10 فیصد تک کمی آنے کے بعد عارضی طور ر وک دیا گیا تھا، تجارت کے بحال ہونے کے بعد تھائی لینڈ ایس ای ٹی 100 8۔6 فیصد اور ممبئی کی سینسیکس میں 9۔4 فیصد کمی آئی۔
کورونان وائرس سے اب بحالی کی جانب جانے والے چین میں نقصانات اتنے شدید نہیں رہے جہاں شنگھائی کمپوزیٹ انڈیکس 3 فیصد کم ہوئی، ایشیا میں جمعے کے روز کے آدھے دن تک زیادہ تر دیگر مارکیٹوں میں نقصانات 4 فیصد سے 6 فیصد رہا۔
وال اسٹریٹ پر راتوں رات ہونے والی فروخت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وال اسٹریٹ کے بڑے فوائد کو ختم کردیا۔
ایس اینڈ پی 500 نے گزشتہ ماہ ہی اپنی تاریخ کی بلندی کو چھونے کے بعد 9.5 فیصد مزید کم ہوئی جس کے بعد اس میں کل کمی 26.7 فیصد ہوگئی، جس نے وال اسٹریٹ کی تقریبا 11 سالوں سے غیر معمولی مارکیٹ کی دوڑ کو باضابطہ طور پر ختم کیا۔
دوسری جانب ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج 2 ہزار 352 پوائنٹس یا 10 فیصد ڈوب گیا جو 19 اکتوبر 1987 کو تقریبا 23 فیصد گرنے کے بعد اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔
یورپی منڈیوں میں بدترین دور کا سامنا کر رہی ہیں اور اس میں انہیں آج مزید برا دن کا سامنا کرنا پڑا جہاں ایک ہی دن میں مارکیٹ 12 فیصد کرگئی جبکہ یورپ کے مرکزی بینک نے مزید بانڈ خریدنے اور معیشت کے لیے مزید مدد کی پیش کش بھی کی ہے۔
آئی جی کے جنگی پان نے ایک تبصرہ میں کہا ، “مضبوط امریکی مالیاتی ردعمل کی کمی اور یورپ سے امریکہ آنے والوں کے لئے تازہ ترین سفری پابندی کے درمیان ، عالمی منڈیوں کو فروخت کی قیمت میں ڈھالا گیا ہے۔
مارکیٹ کی حکمت عملی میں ماہر آئی جی کی جنگیی پان کا کہنا تھا کہ ‘مضبوط امریکی مالیاتی ردعمل کی کمی اور یورپ سے امریکا آنے والوں کے لیے تازہ ترین سفری پابندی کے درمیان، عالمی منڈیوں کو سب کچھ فروخت کرنے پر راغب کیا ہے’۔