٭ سنگھ پریوار ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار محمد علی جناح اور مسلمانوں کو قرار دے رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جناح کی زندگی کا بڑا حصہ قوم پرستوں کے ساتھ گزرا، اگر کانگریس کی قیادت ، ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتی تو وہ کبھی تقسیم کانعرہ نہیں لگاتے، جناح کی ۱۹۴۷ء میں کی گئی جس تقریر کا آج حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس سے تیس سال پہلے ۱۹۱۷ء میں انہوں نے اپنا نقطۂ نظر واضح کردیا تھا، وہ برطانوی پارلیمنٹ کی مقرر کی گئی پا
رلیمانی کمیٹی کے سامنے گواہی دے رہے تھے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہاتھا کہ ’’میں ایک ہندوستانی قوم پرست کی حیثیت سے کہنا چاہوں گا کہ جتنی جلدممکن ہو اتنی سرعت سے ہمیں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات ختم کرنا چاہئے، وہ دن جب آئے گا تو میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہے گا۔ جناح کی سیکولر فکر ونظر کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
جو عناصر ملک کی تقسیم کا مجرم مسلمانوں اور محمد علی جناح کو ثابت کرتے رہے ہیں، انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کی خود نوشت سوانح ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ کے غیر مطبوعہ اوراق میں ظاہر کی گئی اس رائے پر بھی توجہ دینا چاہئے جس میں دو ٹوک الفاظ میں انہوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو ذمہ دار تھے، سنگھ پریوار اور بعض نام نہاد ترقی پسندوں نے جناح اور مسلمانوں کے مفروضہ جرم پر مبنی جو چارج شیٹ تیا رکررکھی تھی مولانا آزاد کے قلم نے اس کی دھجیاں اڑادیں ،سنگھ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں نے جناح کے دو قومی نظریہ کو قبول کرکے اپنے لئے جس جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا تھا ، وہ انہیں پاکستان کی حیثیت سے مل گیا، اب آزاد ہندوستان میں ان کا نہ کوئی حق ہے اور حصہ، لہذا مسلمانوں کو یہاں ان کے رحم وکرم پر رہ کر دوسرے درجہ کی شہری کی طرح زندگی گزارنا چاہئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۶ء تک صدر کانگریس کے عہدہ پر فائز رہے، اس پورے دور کے حالات وشواہد پر ان سے زیادہ معتبر او رمستند شہادت آخر کس کی ہوسکتی ہے، مولانا آزاد کی اس رائے سے جن لوگون کے مفروضات پر چوٹ لگی وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ مولانا کہیں غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جواہر لال نہرو سے ایک کے بعد ایک کئی غلطیاں سرزد ہوئیں ، جس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا آزاد نے غیر مطبوعہ اوراق میں لکھا تھاکہ ایک فیصلہ کن موڑ پر کانگریس کی صدارت سے سبکدوش ہونے کے بارے میں فیصلہ، ان کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوا، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کیبینٹ مشن پلان منظور کرچکی تھی، اگر مولانا صدر کے عہدہ پر فائز ہوتے تو جواہر لال نہرو اور ان کے ساتھیوں کو وہ سب کچھ کرنے کا موقع نہیں ملتا جو بحیثیت صدر کانگریس انہوں نے کیا، مولانا آزاد کا بس چلتا تووہ آزادی ملنے میں کچھ سال کی تاخیر گوارہ کرلیتے لیکن تقسیم کو ہرگز قبول نہیں کرتے، اس کے برعکس جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل ذہنی طور پر بٹوارہ کیلئے راضی ہوگئے اور گاندھی جی کی قوتِ مزاحمت بھی جواب دے گئی تو مجبوراً مولانا آزاد نے بھی ایک سانحہ کے طور پر تقسیم کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا، تاہم اس کا ملال ان کو ہمیشہ رہا، تاریخ کے صفحات میں یہ حقیقت محفوظ ہے کہ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے کیبنیٹ مشن پلان کی تیاری اور اپنے کانگریسی ساتھیوں کو اس کا ہمنوا بنانے میں مولانا آزاد نے بڑی محنت کی اور اس وقت جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اس پر اپنی منظوری کی مہر ثبت کردی تو جواہر لال نہرو کے ایک بیان نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا، لہذا ملک کے بٹوارے کیلئے صرف جناح یا مسلمانوں کو قابل گردن زدنی قرار دینا حقائق سے منہ چرانا ہے، اس میں جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کا بھی بڑا حصہ ہے، سنگھ پریوار تقسیم کو مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم قرار دیتا ہے، اسی لئے وہ سردار پٹیل کے کردار سے ان دیکھی کرتا رہا ہے۔ بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی کے بیان پر چراغپا ہے۔(یو این این)