رب کریم کافرمان ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشی ئٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِِ وَنَقْصٍٍ مِنَ اْلَاَمْوَالِ وَالاَنْفُسِ وَالثّمَرَاتِ وَبَشِّرِ اْلصَّابِرِیْن اَلَّذِیْنَ اِذَاَ صابَتْہُمْ مُّصِیبَۃٌ قَالُواِ ِنّا لِلّہِ وَاِنّااِ ِلیْہِ رَاجِعُونَاورہم ضرورتمہیںخوف وخطر،فاقہ کشی،جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکے تمہاری آزمائش کریں گے اورجب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اوراللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجاناہے‘‘انہیں خوشخبری دے دو۔(البقرہ ۱۵۶۔۱۵۵)ربّ ذوالجلال نے ہرخاص وعام کیلئے بڑے واضح انداز میں قرآن کریم میں باربار فرمایاکہ یہ دنیاتودارلمحن ہے۔ہرملک،ہرقوم،ہرمعاشرہ گوناگوں آزمائشوں سے دوچارہے مگر مصر کی بات ہی نرالی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اخوان المسلمون نے رب کے اس فرمان کواپنے ایمان کاجزوبناتے ہوئے ایک مثال قائم کردی ہے۔
کس قدربدنصیبی ہے کہ مصرمیں دفاع وطن پرمامورفوج ہی اہل وطن کے درپے ہے۔ ایک منتخب جمہوری صدر کوبالجبرمعزول کرکے جمہوریت کاراگ الاپ رہی ہے اوراب تو خیر سے جابر حکمرانوں نے ’’نئے دستور‘‘کی منظوری کاڈھونگ بھی خوب رچایاہے۔مصری وزارتِ داخلہ نے ’’دستوری ریفرنڈم‘‘کے ابتدائی نتیجے کااعلان کرتے ہوئے ناقابل یقین دوسرے لفظوں میں ناپسندیدہ اعلان کیا ہے کہ مصرکے عوام نے بھاری اکثریت کے ساتھ دستورکی منظوری دے دی ہے۔دستوری ریفرنڈم میں ووٹروں کی شرکت صرف ۵۵فیصد ہے ۔ابتدائی گنتی کے مطابق نئے دستورکی منظوری کیلئے ڈالے گئے ووٹوں کی شرح ۹۵%ہے۔مصرمیں چودہ اورپندرہ جنوری کونئے آئینی مسودے پرکرائے گئے ریفرنڈم میں حصہ لینے والے ۹۶%افرادنے اس مسودے کے حق میں رائے دی ۔ مصری وزارتِ داخلہ کے تعلقات عامہ کے سربراہ میجرجنرل عبدالفتح عثمان کاکہناہے :ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ ۵۵% رہا ۔
واضح رہے کہ نئے آئین کے مسودے کوسیکولرحلقوں کے نمائندوں پرمشتمل ایک خصوصی کمیشن نے تیارکیاتھا۔نئے آئینی مسودے کے مطابق مذہبی بنیادپرسیاسی جماعتوں کی تشکیل پر پابندی عائدکی جائے گی اورپارلیمنٹ کے ایوانِ بالاکوختم کردیاجائے گا۔اس ریفرنڈم میں مصری عوام سے ان ترامیم پررائے شماری کااہتمام کیاگیاجن کے ذریعے سے اسلامی قانون کااثرکم کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔نئی ترامیم کے ذریعے سے سیاست میں فوج کے کردارکوبھی بڑھانے کی تجویزدی گئی ہے۔نیوزایجنسی رائٹرنے جو یہودیوں کی ملکیت ہے اپنی خبرمیں بتایا:ایک اعتدال پسنداسلامی جماعت نے کہاہے کہ اس کے حامیوں کوریفرنڈم کے دوران میں ’’نوووٹ‘‘چلانے کی مہم پرپکڑاگیا۔اس سے قبل مصری (فوجی)حکومت نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں ۴۴۴/افرادپکڑنے کااعلان کیا تھا ۔ مصرکی اصل سیاسی ودینی قوت اخوان المسلمون نے اس ریفرنڈم کااعلان کیااورریفرنڈم کے دوران احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ جاری رکھاجس میں مزیدجانیں مبنی برحق اصول پرقربان ہوگئیں۔
ممتازدانشورولی اللہ سعیدی لکھتے ہیں:مصرکے فوجی انقلاب نے عالمی سطح پربہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیںمثلاًجمہوریت کااصل چہرہ کیاہے؟اسلامی تحریکات سے باطل اس قدرخائف کیوں ہے؟اسلامی تحریکات کامستقبل کیاہوگا؟وغیرہ وغیرہ۔اخوان المسلمون کے ساتھ باطل کے حالیہ رویے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تحریکات کے سلسلے میں اس کے عزائم کیا ہیں ؟ وہ یہ گوراہ نہیں کرسکتے کہ اسلام پسنداقتدارمیںآئیںاوراسلامی نظام کے قیام کاراستہ ہموارہوسکے۔پوری دنیامیںاسلامی تحریکات کے سلسلے میں ان کارویہ یکساں ہے بظاہراسلوب اورحکمتِ عملی کافرق ہوسکتاہے لیکن جوہری اعتبارسے کوئی فرق نہیں ہے۔
حسن البنّا شہید ۱۴/اکتوبر۱۹۰۶ء ۔۱۲فروری۱۹۴۹ء)نے اخوان المسلمون کو۲مارچ ۱۹۴۸ء کواسماعیلیہ مصرمیں قائم کیا۔اصلاح،تربیت،دعوت اورجہادپراپنی توجہ مرکوزکرتے ہوئے مکمل اسلام کے قیام کواپنانصب العین قراردیا۔راہِ حق میں آنے والی آزمائشوں پرصبر اورقربانیوں کی ایک طویل داستان اس سے وابستہ ہے۔جمال عبدالناصر،انورالسادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان شدیدتعذیب کے مرحلے سے گزرے،بسااوقات ایسامحسوس ہواکہ شائداب یہ جماعت ختم ہوجائے گی لیکن اخوان نے ہرباراپنے آپ کوپہلے سے بہترمنظم کیا۔ان کوسزائیں دینے والے ختم ہوتے رہے لیکن الحمداللہ اخوان باقی ہیں۔اخوان کے ناقدین نے ان کے بے اثرہونے پرکئی مضامین اورکتابیں لکھیں ۔مصرمیں فوج کے حالیہ انقلاب (بغاوت)کے بعدناقدین کی ایک فوج یہ ثابت کرنے پرتلی ہوئی ہے کہ یہ اخوان کاآخری وقت ہے۔
مشہوراخباروال اسٹریٹ جرنل،ہیرالڈٹریبون اورلیموندنے ڈاکٹرمحمدمرسی کے خلاف سازشی منصوبے کے بارے میں لکھاہے:تجزیوں سے معلوم ہوتاہے کہ جس دن محمدمرسی کی حلف برداری ہوئی اسی دن سے انہیں ہٹانے کی سازش پرعملدرآمدشروع ہوگیاتھا۔مصری فوج کے اعلیٰ حکام کے ساتھ محمدالبرادعی،عمروموسیٰ اورحمدین صبامی کوسازش میں استعمال کیا گیااوریہ سب امریکااوراسرائیل کی سرپرستی میں ہوا۔امارات اورسعودی عرب نے چھ ارب ڈالر کی مدددی،تب جاکرسی آئی اے،موساد اورالسیسی کے باہم اشتراک و تعاون کے ساتھ یہ انقلاب برپاکیاگیا۔بجلی اورپٹرول کی مصنوعی قلت پیداکرکے مرسی کے خلاف مظاہروں کاآغازکیاگیا،جوباتیں سامنے آگئیں ہیں وہ بہت کم ہیںجوپس پردہ ہیںوہ غیرمعمولی ہیں۔
فتنوں کوہوادینا،افواہیں پھیلانا،بھاری رقوم کے عوض افراد کی خریداری اوربڑے پیمانے پرپیشہ ورقاتلوں کے ذریعے سے قتل وغارت گری کے بازارگرم کرناسازشی عناصرکا شیوہ ہے۔مصری انقلاب ایسی بیہودی حرکات سے بھراپڑا ہے ۔ اخوان کے مخالفین (صحیح الفاظ میں معاندین)نے ان پر ایک بڑا الزام یہ لگایاکہ اخوان الاسلام السیاسی(سیاسی اسلام ) کے علمبردارہیں ۔ بڑے پیمانے پریہ پروپیگنڈہ کیاگیااورکتابیں لکھی گئیں اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلامی شریعت میں سیاسی اسلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اوریہ اخوان کی اختراع ہے۔پہلے ’’الاسلام السیاسی ‘‘ کی بجائے’الاسلام اصولی‘‘ (Islamic Fundamentalism) کی اصلاح استعمال کی گئی اورستمبر۱۹۹۴ء میں کانفرنس بعنوان ’’شمالی افریقہ پربنیادپرست اسلام کا خطرہ‘ ‘ جوواشنگٹن میں منعقدکی گئی ،کانشانہ سوڈان تھاکہ اسلامی انقلاب کاسوڈان میں امکان ہے۔پھر۹۰ء کی دہائی میں الجزائرکے تناظرمیں اسلامی بنیادپرستی کی اصطلاح آئی اوراب ۱۱ستمبر۲۰۱۱ء کے بعد باقاعدہ ’’الاسلام السیاسی‘‘کی اصلاح رائج ہوگئی ۔باطل کے نزدیک اخوان المسلمون ،جماعت اسلامی اور اسلامی تحریکات ’’الاسلام السیاسی‘‘کی علمبردارہیں۔
’’الاسلام السیاسی‘‘آج ساری دنیامیں موضوع بحث ہے۔ اس پرمتعددانگریزی اورعربی کی کتابیں منظر عام آچکی ہیں اور یہ سلسلہ مزیدجاری ہے۔پوری کوشش اس بات کی ہے کہ یہ باور کرایا جائے کہ اب ’’الاسلام السیاسی‘‘خواب وخیال کی باتیں ہیں اورحالیہ مصرکے انقلاب کے بعداس کانام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔اس سلسلے میں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اب اخوان کے سامنے کیامتبادل ہے؟اس وقت جوتجزیئے پیش کئے جارہے ہیںان میں کہاجارہاہے کہ اخوان کے سامنے صرف دوراستے ہیں:تشددیااپنے مؤقف سے مکمل دستبرداری اورخاموشی۔بعض لوگ اخوان کوایک دہشتگردتنظیم سمجھتے ہیں ، وہ ماضی میںبھی تشدداورخونریزی کے بے بنیادالزامات اخوان پرعائدکرتے رہے ہیںاوراب وہ کہتے ہیں کہ اخوان اب پوری طرح تشددکی راہ اپنائیں گے اور مصر کے حالات مزیدخراب ہوں گے،اس کااثردیگرعرب ممالک پربھی پڑے گاجہاںاخوان کے اثرات قابل ذکرہیں۔مصر کے حالیہ فوجی انقلاب کے موقع پراگرچہ اخوان کااحتجاج مکمل طورپر پر امن رہااورفوج نے یکطرفہ (بہیمانہ تشددپرمبنی)کاروائی کی لیکن تشدداورقتل کے سینکڑوں الزامات اخوان کے سرتھوپ دیئے گئے۔مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طرح اخوان تشددکے راستے پرچل نکلیں اورباطل کواپنے عزائم پورے کرنے میں مددملے گی بہرحال اخوان نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل میں تشددکویکسرمستردکردیاہے۔
دوسراراستہ بددلی،مایوسی اورمؤقف سے دستبرداری کاہے۔بعض تجزیہ نگارلکھتے ہیں کہ اب مصرمیں اخوان یہ رویہ نہیں اپنائیں گے اور ’’الاسلام السیاسی‘‘ کے قیام سے دستبردار ہو جائیں گے۔مصرکی فوجی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اخوان اس دوسرے راستے کواختیارکرلیں ۔اخوان کی قیادت کی گرفتاری ان سے تعلق رکھنے والے لوگوں پرتشدد ، مظاہرین پر اندھا دھندفائرنگ اوربڑے پیمانے پرخوفزدہ اورہراساں کرنااس حکمت عملی کاحصہ ہے۔
اس پورے منظرنامے سے یہ تحریکات اسلامی کیلئے خوش آئندباتیں بھی ہیں۔اخوان نے جرأت اوراستقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے انقلاب کے بعدجان ومال کی بے مثال قربانیاں پیش کی ۔ انہوں نے نازک سے نازک گھڑی میں بھی اپنے مظاہرے پرامن رکھے۔ان کے خلاف تشددکے سلسلے میں پروپیگنڈہ بھی ہوالیکن حقیقت دنیاکے سامنے واضح ہو کرآگئی اورمخالفین کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق اخوان اپنی ۸۵سالہ تاریخ میں جبروتشددکے سب سے سنگین دورسے گزررہے ہیں۔اخوان کے مثالی طرزِ عمل سے ملکی اوربین الاقوامی سطح پر انہیں نیک نامی حاصل ہوئی ہے۔منتخب صدرکوبلاسبب برطرف کرکے مخالفین اسلام کاچہرہ کھل کردنیاکے سامنے آ گیا ہے۔وہ اخوان اوراسلام پسندوں سے خائف ہیں،یہ بات واضح ہوگئی ہے۔پوری دنیامیں عوامی سطح پراخوان کیلئے ہمدردی اوراحترام پیداہواہے۔یہ بھی واضح ہے کہ پرامن مظاہرین پر فوج کی بڑی رسوائی ہوئی ہے اوراخوان کے صبروثبات کے چرچے عام ہیں۔
مخالفین دن رات اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ اخوان ختم ہوگئے اور ’’الاسلام السیاسی‘‘کانظریہ پوری طرح ناکام ہوگیاہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اخوان کے حق میں جو کچھ لکھا جارہاہے اس پربہت کم یقین کیاجاتاہے۔متعددتجزیہ نگارلکھتے ہیںکہ فوجی انقلاب کے اس پورے واقعے سے اخوان کاوقاربلندہواہے اوران کی تائیدمیں اضافہ ہواہے اور آئندہ ان کی حکومت میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔مشہورتجزیہ نگارمحسن محمدصالح لکھتے ہیں: اخوان پھرحکومت میں آئیں گے اوربھرپورتائیدکے ساتھ اقتدارکوقدرومنزلت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچائیں گے،اس کے چنداسباب یہ ہیں:
۱۔اخوان کی دعوت اسلام کی دعوت ہے اوراسلام کی دعوت ہمہ گیری اورزندگی کے تمام شعبوں پرمحیط ہے۔بیداری وانقلاب اسلام کی تاریخ ہے۔عالم اسلام میں استعمارکامقابلہ کرنے والی طاقت صرف اسلامی تحریک ہے جسے جزیرۃ العرب میں وہابیت،سوڈان میں مہدیہ،لیبیامیں سنوسیہ،ہندوستان میں سیداحمدشہیدکی تحریک،الجزائرمیں بن بادیس کی تحریک،مصرمیں اخوان المسلمون ،پاک وہنداوربنگلہ دیش میں جماعت اسلامی ،ترکی میں نورسیہ اورترکی کے ساتھ ملحق روسی استعمارسے آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں میں الہنضہ ہیں۔
۲۔۱۹۶۷ء کی جنگ میں یہودیوں نے فلسطین اورسیناوغیرکی باقی زمینیں بھی ہڑپ کرلیں،ایک اضمحلال یہ پیداہوا،اس میں روشنی کی کرن اخوان کی تحریک ہی تھی۔
۳۔استعماراورصہیونیت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے امت ابتلاء اورآزمائش میں ہے،اس کے جواب میں البعثیہ،الناصریہ،العلمانیہ، الاشتراکیہ اورالراسمالیہ سب ناکام ہوگئے۔صہیونیت کے مقابلے میں کسی کے پاس کچھ نہیں ہے ،اب صرف اسلام کی لہرہے جس سے صہیونیت خوفزدہ ہوکراس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
۴۔اسلامی تحریکات نوجوان خون اورنیک سیرت وکردارسے مالامال ہیں جبکہ دوسری تحریکوں میں اذکاررفتہ پرانے لوگ ہیں۔
۵۔اسلام پسندوں نے اپنی ثابت قدمی،صبرواستقلال سے ایک مثالی نمونہ پیش کیاہے ،جمہوریت کااحترام کیا،امن وامان باقی رکھااورانتخابات کوقبول کیا۔مصرمیں پانچ انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ڈاکٹرمرسی نے کسی میڈیاپرپابندی نہیں لگائی اورکسی کے ساتھ کوئی زیادتی یاکوئی انتقامی کاروائی نہیں کی جبکہ فوجی حکومت نے میڈیاپرپابندی لگادی ہے۔ان اسباب کی بنیادپراسلام پسندوں کی تائیدمیںدن بدن مزیداضافہ ہوتاجارہاہے اورلوگوں کی ہمدردیاں بڑھتی جارہی ہیں۔اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت اوردستور کی حفاظت کرنے والے دراصل اخوان ہی ہیں۔
۶۔انقلاب سے واضح ہوگیاہے کہ اخوان کامقابلہ عام شفاف انتخابات میں کرناناممکن ہے۔
۷۔اب اس خطے میں خوف کی نفسیات ختم ہوگئی ہے ،اب کوئی جبروجورنہیں کرسکتا۔اسلامی تحریک عوام کی واحدامیدہے۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ کرنامشکل نہیں کہ اخوان کومٹانے کاخواب دیکھنے والے خودمٹ جائیں گے اوران کانیادستورتاریخ کے صفحات میں جگہ پانے کے لائق بھی قرار نہیں پائے گا۔کوئی بھی تومان کرنہیں دے رہا،