ایک ایسے وقت میں جہاں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے باعث دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے، وہیں ایک یورپی ملک میں معمولات کے مطابق زندگی رواں دواں ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یورپ اس وقت کورونا وائرس کا مرکز ہے اور کئی یورپی ممالک میں تیزی سے نئے کیس سامنے آنے کے ساتھ ساتھ وہاں ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔
اس سے زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جس یورپی ملک میں معمول کے مطابق زندگی رواں دواں ہے، وہاں بھی تین ہزار سے زائد کورونا کیسز سامنے آ چکے ہیں اور ہر بڑھتے دن وہاں کیسز میں اضافہ ہی ہو رہا ہے لیکن اس باوجود وہاں پر لاک ڈاؤن نہیں ہوا اور نہ ہی لوگوں نے کورونا کے ڈر کی وجہ سے باہر جانا چھوڑا ہے۔
خبر رسان ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یورپی ملک سویڈن میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے باوجود معمولات زندگی بحال ہیں اور وہاں پر نہ صرف کافی شاپ کھلی ہوئی ہیں بلکہ وہاں شراب خانوں سمیت جوا خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے دیگر ممالک اور یہاں تک پڑوسی ممالک میں بھی سخت لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے باوجود سویڈن میں لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں کیا گیا البتہ حکومت نے لوگوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی ہیں۔
سویڈن کی حکومت نے لوگوں کو تجویز دی ہے کہ وہ گھروں سے بیٹھ کر کام کریں اور باہر جانے کے بعد ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں جب کہ 70 سال سے زائد عمر کے لوگ گھروں سے نہ نکلیں تو اچھا ہے۔
سویڈین کی حکومت نے کسی بھی جگہ 50 افراد کے ایک ساتھ کھڑے ہونے تک کی اجازت دے رکھی ہے، تاہم 50 سے زائد افراد کے مجمع پر پابندی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سویڈن کی حکومت نے کسی بھی ہوٹل، جوا خانے یا نائٹ کلب میں لوگوں کے بیٹھنے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ وہاں کھڑے ہونے اور رش لگانے پر پابندی عائد کی ہے اور اب بھی سویڈن کے کئی شہروں میں ہوٹلوں مین زندگی رواں دواں ہے۔
اگرچہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے سویڈن کے لوگوں کے باہر نکلنے میں کمی ہوئی ہے، تاہم اب بھی لوگ باہر نکل رہے ہیں اور ہوٹلوں پر وقت گزارنے سمیت گلیوں اور سڑکوں پر ایک دوسرے سے تھوڑی سی دوری پر آرام سے چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں متعدد فاسٹ فوڈ، کافی شاپس، نائٹ کلب اور جوا خانے کھلے ہوئے ہیں اور لوگ معمول کے مطابق وہاں پر جمع ہو رہے ہیں، تاہم عام دنوں کے مقابلے وہاں رش میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اسٹاک ہوم کی پبلک ٹرانسپورٹ انتظامیہ نے تصدیق کی کہ اگرچہ ملک میں لاک ڈاؤن نہیں ہے تاہم پھر بھی ان کی سواری میں 50 فیصد تک کمی ہوئی ہے اور لوگ پیدل چلنے اور ایک دوسرے سے دور رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
دوسری جانب سویڈن کے افراد نے بھی حکومت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ان پر ذمہ داری بڑھ گئی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں اور زیادہ تر گھروں سے ہی کام کریں۔
خیال رہے کہ سویڈن میں 30 مارچ کی سہ پہر تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 3700 تک جا پہنچی تھی جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی 110 تک جا پہنچی تھی، تاہم اس باوجود وہاں پر یورپ کے دیگر ممالک اور خاص طور پر پڑوسی ممالک کی طرح خوف نہیں دیکھا جا رہا۔