براعظم افریقہ میں بہنے والا دریائے نیل جہاں دنیا کے طویل ترین دریاؤں میں اپنی منفرد شہرت رکھتا ہے، وہیں یہ دریا مصر کے معاشی و تہذیبی حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دریائے نیل کے وسیع و عریض احاطے پر پھیلے علاقے سے احرام مصر کی تعمیر کا سامان کشتیوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح میں صحرائے اعظم کی وسعت گیری و خشک سالی کے باعث دریائے نیل کی جانب ہجرت کرنے والے مصری آثار قدیمہ اس عظیم تہذیب کا پیشہ خیمہ بنے، جو آج بھی دریائے نیل کے کنارے ملتے ہیں۔
6,695 کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ روم میں گرنے سے پہلے یہ سینکڑوں دیہاتوں کو سیراب کرتا ہے۔ عالمی سطح پردریائے نیل کی ایک وجہ شہرت اس کے نیلگوں پانی میں پائے جانے والے مگرمچھ ہیں جوکہ ہزاروں سالوں سے اس دریا کا حصہ ہیں۔ دریائے نیل کے کنارے، روایتی نیلے اور سفید گنبدوں والے گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ وہاں ہر گھر میں مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہر گھر کے دروازے پر حنوط شدہ مگرمچھ ملتے ہیں۔
گرب سہیل نامی گاؤں اسوان ڈیم کی دوسری جانب دریا کے پار آباد ہے۔ اس گاؤں تک پہنچنے کے دو راستے ہیں براستہ زمین یا براستہ آب (دریا)۔ اگر گرب سہیل پہنچنے کے لیے بس کے راستے کو اپنایا جائے تو ہ عمارت اور گھر کے باہر”Crocodile House” کندہ ملے گا اور حنوط شدہ یا پینٹ شدہ مگرمچھ بھی۔