روم: معروف اطالوی سائنسدان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کو روکنے کے لیے ان کے ملک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کام کرتے دکھائی نہیں دے رہے اور عوام کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے حکمت عملی کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹلی، جہاں کورونا وائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، نے 3 ہفتوں کے لیے ملک گیر لاک ڈاون کر رکھا ہے تاہم گزشتہ 3 روز میں وہاں سامنے آنے والے کیسز کی تعداد 5 ہزار سے 6 ہزار ہے۔
پدوا یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی کے پروفیسر ایندریا کریسانتی نے ریڈیو کیپیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کئی نئے کیسز ان لوگوں کے ہیں جو اپنے اہلخانہ کے افراد سے منتقل ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کم علامات والے افراد کو گھروں میں آئیسولیٹ ہونے کا کہنے کے بجائے حکام کو ایسے مراکز بنانے چاہیے جہاں وہ اپنے اہلخانہ سے دور ہوں جیسا چین میں کیا گیا جہاں دسمبر کے مہینے میں وائرس پہلی مرتبہ سامنے آیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا کوئی مشکلات کھڑی کر رہا ہے، ان تمام تر پابندیوں کے اقدامات کے باوجود کیسز سامنے آرہے ہیں، کیا یہ سوال کر رہے ہیں کہ جو گھروں میں بیمار ہیں وہ اپنے اہلخانہ کے دیگر افراد کو بیمار کر رہے ہیں، میرے مطابق انفیکشنز گھروں میں پھیل رہا ہے‘۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جس طرح کے اقدامات وینیٹو میں کیے گئے جہاں اٹلی میں سب سے کم کورونا وائرس سے ہلاکتیں ہوئیں، ایسے ہی اقدامات پورے ملک میں اپنانے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں گھروں میں بیمار افراد کی نشاندہی کرنے میں جارحانہ طریقہ کار اپنانا ہوگا‘۔
سائنسدان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ان کے گھروں پر جانا ہوگا، ان کے اہلخانہ، دوستوں اور پڑوسیون کے ٹیسٹ کرنے ہوں گے اور ان تمام لوگوں کو، جن میں وائرس کی تصدیق ہوئی، انہیں لے جانا چاہیے اور اگر وہ بہتر ہیں تو انہیں ان کے گھروں کے باہر ہی کہیں قیام کرنے کی جگہ منتقل کرنا چاہیے‘۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سول پروٹیکشن ایجنسی کی صدر اینجولو بوریلی کا کہنا تھا کہ سامنے آنے والے کیسز اور ہلاکتوں کی شرح کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے اقدامات غیر مؤثر ہیں۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان اقدامات کے بغیر ہمیں تعداد کہیں زیادہ ملتی‘۔