اسرائیلی حکومت نے اگرچہ دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے جزوی لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات کی گئی ہیں تاہم پھر بھی حکومت کو ایک خاص طبقے کے لوگوں کو محدود کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اگرچہ عارضی طور پر مذہبی عبادت گاہیں بھی بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم حکومتی ہدایات پر وہاں کے الٹرا آرتھوڈوکس یہودی جنہیں حریدی یہودی، سخت گیر، قدامت پسند، تنگ نظر یا شدت پسند یہودی بھی کہا جاتا ہے وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرتے نہیں دکھائی دیتے۔
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی اسرائیل کے متعدد شہروں میں موجود ہیں اور اس مذہبی گروہ کے افراد کے علاقوں کو انتہاپسند، قدامت پسند و تنگ نظر یہودیوں کے علاقوں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں وبا کے پھیلاؤ کے باوجود وہ اپنے معمولات زندگی کو ترک کرنے سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس وجہ سے وہ اسرائیل کے لیے اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ہارتز کے مطابق الٹرا آرتھوڈکس یہودیوں کی آبادی والے علاقوں میں ہر تیسرے شخص میں کورونا کی تشخیص ہوئی اور مجموعی طور بھی اسرائیل کے زیادہ تر کورونا کیسز ان ہی علاقوں سے سامنے آئے جہاں پر تنگ نظر یہودیوں کی آبادی زیادہ ہے۔
رپورٹ میں حکومتی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تل ابیب کے نواحی علاقے بنی براک میں 31 مارچ کو 508 الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی اور مذکورہ تعداد اسرائیل میں گزشتہ 4 دن سے سامنے آنے والے کیسز سے دگنی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے دیگر شہروں سے جہاں پر یہودی، مسیحی اور مسلمانوں پر مشتمل آبادی ہے وہاں سے گزشتہ 4 دن سے 500 کیسز سامنے نہیں آئے مگر الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کے ایک ہی علاقے سے ایک ہی دن میں 508 کیس سامنے آئے۔
رپورٹ کے مطابق 31 مارچ سے ایک روز قبل شدت پسند یہودیوں کے ایک دوسرے علاقے سے بھی 462 کیسز سامنے آئے تھے اور اس دن محض 1300 الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کے علاقوں میں کیے جانے والے کورونا کے ٹیسٹ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ہر تیسرا شخص کورونا کا شکار ہے جب کہ عام طور پر مذکورہ مذہبی فرقے کے علاقوں کی 35 فیصد سے زائد آبادی وبا کا شکار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے تمام شہروں میں جہاں بھی الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی اکثریت علاقے ہے، وہاں پر دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ کورونا کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور عام طور پر مذکورہ طبقے کی آبادی کے 20 فیصد افراد وبا کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی ایجنسی موساد کا کورونا وائرس کے خلاف پُراسرار کردار
حیران کن بات یہ ہے کہ الٹرا آرتھوڈوکس فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں کورونا وائرس کے زیادہ کیس سامنے آنے کے باوجود مذکورہ فرقے کے لوگ ہی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے۔
رپورٹ کے مطابق لوگوں کی جانب سے احتیاط اختیار نہ کرنےکی وجہ سے ہی اسرائیل میں یکم اپریل تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 5 ہزار 591 سے زائد ہوچکی تھی جب کہ وہاں 21 ہلاکتیں بھی ہوچکی تھیں۔
الٹرا آرتھوڈوکس فرقے کے لوگ لاک ڈاؤن پر عمل نہیں کر رہے
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے تاہم الٹرا آرتھوڈوکس کے پیروکار اس پر عمل نہیں کر رہے اور وہ نہ صرف معمولات زندگی بحال رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ مذہبی عبادات میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔
تنگ نظر یا شدت پسند یہودی فرقے سے وابستہ الٹرا آرتھوڈوکس کے پیروکاروں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے باوجود گھروں تک محدود نہ رہنے کی وجہ سے مذکورہ افراد پورے اسرائیل کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور وہ ایک سے دوسری جگہ حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر ہی سفر کر رہے ہیں۔
الٹر آرتھوڈوکس فرقے سے وابستہ افراد جہاں لاک ڈاؤن پر عمل نہیں کرتے دکھائی دے رہے، وہیں ایسے افراد اسرائیلی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اعلان کردہ احتیاطی تدابیر کی بھی مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔